https://www.colorado.edu/today/2018/04/30/how-city-living-could-increase-risk-mental-illness
@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
🌷الامام الصادق في قوله تعالى:
🔹الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته:
🔸يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه،
🔸و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
🔸و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
🔸و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
🔸ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه،
🔸حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
🔸و انّما هو تدبّر آياته،
🔹يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “
🔸جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
🔹قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
🔹پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
🔹پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
🔹اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں، اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
🔹اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
🔹اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
🔹خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔
🔹ان لوگوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے معنی و مفہوم کو غلط بیان کیا۔
🔹جو سبسے اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
🔸اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
Join here👉@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🌷الامام الصادق في قوله تعالى: "الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته": يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه، و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه، حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
و انّما هو تدبّر آياته، يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق سلام اللہ علیہ نے قرآن میں خدا کے ان الفاظ “جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اسطرح پڑھتے ہیں جسطرح پڑھنے کو حق ہے”، کےمتعلق فرمایا:
وہ اسکی آیات کو پڑھتے ہیں اور اسکے معانی میں غور کرتے ہیں اور اسکے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ وہ اسکے وعدوں سے امید اور اسکے عذاب سے خوف رکھتے ہیں، وہ اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر غور کرتے ہیں، اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اسکی سورتوں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔ انہوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے مطالب کو غلط بیان کیا۔
جو اہم ہے وہ اسکی آیات میں غور و فکر کرنا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لئے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🌷الامام الصادق في قوله تعالى: "الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته": يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه، و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه، حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
و انّما هو تدبّر آياته، يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں،
اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں،
اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
اس کے احکام بجا لاتے ہیں،
اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔ انہوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے مطالب کو غلط بیان کیا۔
جو اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
🌷الامام الصادق في قوله تعالى:
🔹الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته:
🔸يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه،
🔸و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
🔸و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
🔸و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
🔸ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه،
🔸حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
🔸و انّما هو تدبّر آياته،
🔹يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “
🔸جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
🔹قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
🔹پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
🔹پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
🔹اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں، اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
🔹اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
🔹اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
🔹خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔
🔹ان لوگوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے معنی و مفہوم کو غلط بیان کیا۔
🔹جو سبسے اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
🔸اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
Join here👉@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
🌷الامام الصادق في قوله تعالى:
🔹الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته:
🔸يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه،
🔸و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
🔸و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
🔸و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
🔸ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه،
🔸حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
🔸و انّما هو تدبّر آياته،
🔹يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “
🔸جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
🔹قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
🔹پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
🔹پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
🔹اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں، اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
🔹اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
🔹اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
🔹خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔
🔹ان لوگوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے معنی و مفہوم کو غلط بیان کیا۔
🔹جو سبسے اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
🔸اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
Join here👉@AbodeofWisdom
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
🌷الامام الصادق في قوله تعالى:
🔹الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته:
🔸يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه،
🔸و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
🔸و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
🔸و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
🔸ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه،
🔸حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
🔸و انّما هو تدبّر آياته،
🔹يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “
🔸جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
🔹قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
🔹پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
🔹پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
🔹اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں، اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
🔹اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
🔹اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
🔹خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔
🔹ان لوگوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے معنی و مفہوم کو غلط بیان کیا۔
🔹جو سبسے اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
🔸اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
Join here👉@AbodeofWisdom
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠💠💠 💠💠﷽💠💠💠💠💠💠
🔻ENGLISH🔻
🌱 Why did the prophets have less followers in their time than us in our time ?
🌱 This occurrence has a secret. The secret is that they continually fought against the weaknesses of the people. While we use the weaknesses of people for our own profits. They wanted to eliminate those weaknesses and finish them off.
🌱 Whereas we have taken those weaknesses and used them to our advantage. For example in order to please the organizers of the “majalises” or the “audience” we talk accordingly to please them instead of talking beneficial to them.
📖Ayatollah Shahīd Motahhari, Ten talkes, p. 273.
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨
🔻اردو🔻
🌱انبیا کے زمانے میں، انبیا کے پیرو اور مقلدین کیوں کم تھے؟ جب کہ ہمارے وقت میں ایسا نہیں ہے! (یعنی ہمارے پیرو، انبیا کے مقلدین سے زیادہ کیوں ہیں؟)
🌱اس بات میں ایک راز ہے. وہ راز یہ ہے کہ انبیا ہمیشہ لوگوں کی کمزوریوں کے ساتھ اختلاف کرتے اور لوگوں کی کمزوریوں سے لڑتے تھے. جب کہ ہم لوگوں کی کمزوریوں کو اپنے فایدے کے لیے استعمال کرتے ہیں. اور انبیا انسانوں کی کمزوریوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتے تھے.
🌱لیکن ہم “لوگوں” کی کمزوریوں سے فایدہ اُٹھاتے ہیں. مثال کے طور پر؛ ہم “مجالس برپا کرنے والوں” اور “مجالس سُننے” والوں کو “پسند آنے” والی اور “اُنہیں خوش کرنے والی باتیں” کہتے اور پڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے فایدے کی باتیں لوگوں کو بتائیں.
📖آیت اللہ شہید مطہری، دہ گفتار، ص.۲۷۳
Join here 👇
🌺🌺@AbodeofWisdom 🌺🌺
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠 Much wisdom, lessons and depth lie like concealed treasures in the narration of Ahlul Bayt (as). What is the way to open oneself up to this great grace?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 We have spoken more than once that our problem with Ahlul Bayt is that we have contained them in the prison of tragedy only! And that when we opened out the horizons, we did that in the area of miracles and miraculous favours. As for their thinking, their approach to life, their authentic prophetic line in life their comprehensive Qur’anic approach and all that they have said and moved dynamically in, which can provide answers to the questions, queries and problems from which our generation is suffering and future generations will be suffering, there is no work done that brings it out and explains it satisfactorily. We have cut them off from the dynamic movement of life and entered them in the movement of tears, therefore we have made a wide opportunity quite narrow!
You have attended, in this season, more than one gathering to mark the anniversary of Fatimah’s death. What have you heard about Fatimah al-Zahra (as)? I am here speaking in general terms, for amongst the orators there are those who bear the responsibility of enlightenment in the ways of Ahlul Bayt (as). However, most have concentrated on the tragedy and grievance. We emphasize the grievance, but this has been the grievance in the way of the Message, and not a weeping grievance. Ours is a grievance which encompasses vigor, strength, enlightenment, criticism, and confrontation.
سوال: احاديث اور روايات اھلبيت علیہم السلام ميں حکمت، حيات انساني کے ليے درس اور عميق مطالب کا ايک خزانہ پوشيدہ ہے؟ اس عظیم ذخيرہ سے استفادہ حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: ہم اس پر بارہا گفتگو کر چکے ہيں کہ اہلبيت کي نسبت ہمارا مسئلہ يہ ہے کہ ہم نے انہيں فقط مصائب و آلام کے قيدخانہ ميں مقيد کر ديا ہے! اور جب ہم نے ان کا ذکر کيا بھي تو ان کو محض چند معجزات اور ان کي جانب سے ظاہر ہونے والے معجزاتي فوائد تک محدود رکھا ہے۔ جہاں تک ان کي فکر، نظريہ زندگي، مستند پيغمبراںہ طرز حيات، قرآن کے متعلق جامع نقطہٴ نظر، اور وہ سب جو انہوں نے فرمايا اور عمل کر کے دکھايا، اور جو ہميں اور ہماري آنے والي نسلوں کو درپيش سوالات و مسائل کا راہ حل فراہم کرسکتا ہے، ان تمام پہلووٴں کو آشکار کرنے اور تسلي بخش وضاحت کرنے کے ليے کوئي کوشش اور کام نہيں ہوا ہے۔ ہم نے اہلبيت کو ايک متحرک نظام زندگي سے قطع کرکے غم اور آنسووٴں کي ايک تحريک ميں داخل کرديا ہے، لہذا ہم نے ايک بہت وسيع اور بہترين موقع کو نہايت کوتاہ کر ديا ہے۔
آپ نے حضرت فاطمہ زھرا کي شہادت کي مناسبت سے ان ايام عزا ميں يقيناً ايک سے زيادہ مجالس ميں شرکت کي ہے۔ آپ لوگوں نے ان مجالس ميں حضرت زھرا کے متعلق کيا سنا ہے؟ ميں يہاں ايک عمومي بات کررہا ہوں، کيونکہ ذاکرين اور خطباٴ لوگوں کے سامنے اھلبيت کي راہ کو روشن انداز ميں پيش کرنے کي ذمہ داري رکھتے ہيں۔ جبکہ ان ميں سے بہت سوں نے اپني توجہ اور گفتگو کا محور فقط اھلبيت کے مصائب اور مشکلات کو قرار ديا ہے۔ ہم نے صرف مصائب پر توجہ مرکوز رکھي جبکہ يہ تبليغِ رسالت کي راہ ميں پيش آنے والے مصائب ہيں نا کہ بے مقصد گريہ و رازي والے مصائب۔ يہ مصائب ايسے ہيں جس میں جوش و ولولہ، قوت، روشن خیالی، تنقید اور طاغوت کے مقابل محاذ آرائی شامل ہے۔
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻@AbodeofWisdom
💠 What is the Difference between Fatima Zahra and other women?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 The difference is that Fatimah (peace be with her) possessed a degree of spiritual depth in her personality that made her a manifestation of the message. Most women with a mission have a commitment to the message which comes from outside of themselves. By contrast, for Fatimah (peace be with her) it came from inside her mind and heart and soul, because she lived the whole of her life with the message and under the wing of the Messenger of Allah (peace be with him and his Progeny), and then opened herself up to the full vigor of the message in the House of Ali (peace be with him), and moved dynamically in the emotion of the message with Hasan and Husain (peace be with them). Therefore, she lived the message. This is the difference between depth and shallowness. You cannot find anything in her personal life that speaks of leisure of purposelessness. This is what makes her a role model - the ultimate role model.
سوال: حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ عليہا) اور دوسري عام خواتين ميں کيا فرق ہے؟
جواب: حضرت زھرؑا اور دوسري خواتين ميں يہ فرق ہے کہ وہ اپني شخصيت ميں ايک خاص روحاني اور معنوي گہرائي کي حامل تھيں، جس نے انہيں رسالت کا مظہر بنايا۔ بہت سي خواتين جو کسي مقصد کي راہ ميں کوشاں ہيں، ان کا اس مقصد سے عزم اور وابستگي ايسي ہے جو ان کي ذات کے اندر سے ظاہر نہيں ہوتي بلکہ بيروني عوامل کا نتيجہ ہيں ۔ اس کے برعکس حضرت فاطمہ زھرا عليہالسلام کے ليے يہ عزم ان کے ذھن، اور روح و قلب کے اندر سے آيا کيونکہ انہوں نے اپني تمام تر زندگي رسالت اور رسول اللہﷺ کے سائے ميں بسر کي، اور پھر اميرالمومنينؑ کے گھر ميں اپنے آپ کو اس پيغام کي تبليغ کے لئے پوري قوت کے ساتھ پيش کيا، اور اپنے بيٹوں امام حسنؑ اور امام حسينؑ کے ہمراہ ترويج رسالت کي راہ ميں جوش و ولولہ کے ساتھ متحرک رہيں۔ لہذا، حضرت زھرؑا نے اپني ذات کو رسالت ميں ضم کرکے، اس کے پيغام کو زندہ رکھا اور اس پر عمل کرکے دکھايا۔ کسي مقصد کي راہ ميں سطحي پن يا گہرائي کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرنے ميں يہي فرق ہے۔ کوئي شخص بھي حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليہا کي ذاتي زندگي ميں کسي بے معني فرصت اور تفریح کو تلاش نہيں کر سکتا۔ يہي چيز آپ کو ايک نمونہٴ عمل بناتي ہے- ايک حتمي اور بہترين نمونہٴ عمل!
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻AbodeofWisdom
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠💠💠 💠💠﷽💠💠💠💠💠💠
🔻ENGLISH🔻
🌱 Why did the prophets have less followers in their time than us in our time ?
📍Ayatollah Mutahhari:
🌱 “This occurrence has a secret. The secret is that they continually fought against the weaknesses of the people. While we use the weaknesses of people for our own profits. They wanted to eliminate those weaknesses and finish them off.
🌱 Whereas we have taken those weaknesses and used them to our advantage. For example in order to please the organizers of the “majalises” or the “audience” we talk accordingly to please them instead of talking beneficial to them.”
📖Ayatollah Shahīd Motahhari, Ten talkes, p. 273.
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨
🔻اردو🔻
🌱انبیا کے زمانے میں، انبیا کے پیرو اور مقلدین کیوں کم تھے؟ جب کہ ہمارے وقت میں ایسا نہیں ہے! (یعنی ہمارے پیرو، انبیا کے مقلدین سے زیادہ کیوں ہیں؟)
🌱اس بات میں ایک راز ہے. وہ راز یہ ہے کہ انبیا ہمیشہ لوگوں کی کمزوریوں کے ساتھ اختلاف کرتے اور لوگوں کی کمزوریوں سے لڑتے تھے. جب کہ ہم لوگوں کی کمزوریوں کو اپنے فایدے کے لیے استعمال کرتے ہیں. اور انبیا انسانوں کی کمزوریوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتے تھے.
🌱لیکن ہم “لوگوں” کی کمزوریوں سے فایدہ اُٹھاتے ہیں. مثال کے طور پر؛ ہم “مجالس برپا کرنے والوں” اور “مجالس سُننے” والوں کو “پسند آنے” والی اور “اُنہیں خوش کرنے والی باتیں” کہتے اور پڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے فایدے کی باتیں لوگوں کو بتائیں.
📖آیت اللہ شہید مطہری، دہ گفتار، ص.۲۷۳
Join here 👇
🌺🌺@AbodeofWisdom 🌺🌺
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠Imām Sadiq (peace be with him) said:
🔷“The people of intellect are those who function through contemplation and reflection in order to inherit the love of God.
🔷When the love of God is inherited by the heart and enlightened through it, then recognizing the special attention from God enters the heart. When recognition of God’s special attention reveals upon the heart, it (the heart) will become the center of benefits.
🔷And whenever it becomes the place of benefits the heart will express wisdom, and whenever the heart expresses wisdom then it becomes the possessor of sagacity.
🔷Whenever it achieves the grade of sagaciousness, he will act with strength and power, and whenever he acts with strength he will understand the seven layers of skies.
🔷Whenever he arrives at this stage, he will enhance and upgrade contemplation through recognizing the special attention from God, (constantly pursuing) wisdom, and (only speaking) insightful language.
🔷Whenever he comes to this stage his desires and love will be for the Creator (God).
🔷When he has done this he arrives at such a high state, where he will perceive his Lord in his heart….
🔷Here, he will inherit wisdom but not in the way that the wise adopt it, and he will inherit knowledge but not in the manner that scholars grasp it, and he will inherit truth and veracity but not in the way that the sincere ones attain it.
🔷The wise adopt wisdom through silence, and the scholars endeavor tirelessly to grasp it, and the sincere attain truth and veracity through humility and continuous worship.
🔷Whoever acquires (the above) through such means will either lose and downgrade or upgrade in rank, however, they mostly downgrade and do not upgrade.
🔷It is because they did not uphold God’s rights and did not follow His commands. This is the description of those who are not truly conscious of God as they are supposed to be. And did not love Him as he ought to be loved.
🔷Therefore, do not be deceived and deluded by their prayers, fasts, and their oration and knowledge. ‘Indeed they are ‘frightened and escaping donkeys’ (Quran 74: 50).’”
💠امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا:
🔶عقل مند (اولوالالباب) وہ لوگ ہیں جنہوں نے غوروفکر سے کام لیا، اور اسی غوروفکر سے پرودگار کی محبت کی وراثت کو پا لیا۔
🔶جب پروردگار کی محبت، دل میں آ ہی گئی اور دل اس سے روشن ہو گیا، تب پروردگار کا لطف و کرم اور مہربانی بھی دریافت ہوگی. اور جب پروردگار کا لطف نازل ہوتا ہے تو دل فایدوں (فوائد) کا مرکز بن جاتا ہے۔
🔶اور جب دل فایدوں کا مرکز بنتا ہے تو وہ حکمت سے/کی بات کرتا ہے اور جب دل حکمت و عقلمندی کے ذریعہ سے بات کرتا ہے تو فہم و شعور و فراست کا حامل بن جاتا ہے۔
🔶جب دل میں فہم و فراست پیدا ہوتی ہے تو ایسا انسان قدرت اور قوت کے ساتھ عمل کرتا ہے اور جب وہ قدرت کے ساتھ عمل کرتا ہے تو ساتوں آسمانوں کو پہچان لیتا ہے۔
🔶جب وہ شخص اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو اُسکی فکر مُنقلب (عالی) ہو جاتی ہے، جو پروردگار کے لطف و کرم، حکمت اور ویسے ہی بیان میں غرق ہوتی ہے۔
🔶اور جب وہ اس حالت کو پا لے تو اسکی خواہشات، شہوتیں اور محبتیں فقط پروردگار سے جڑ جائیں گی۔
🔶جب وہ اوپر بیان شدہ امور کو انجام دے چُکا، پھر وہ عظیم مقامات کو حاصل کر لیتا ہے، اور اب وہ اپنے دل میں پروردگار کا مشاہدہ کرتا ہے۔
🔶یہاں وہ حکمت (گہری سمجھ) کی وراثت کو حاصل کرے گا لیکن نہ اُس طرح جیسے حُکما حاصل کرتے ہیں۔ علم کی وراثت کو پا جائے گا لیکن نہ اس طرح جیسے علماء وارث ہیں، اور سچائی و صداقت کی وراثت کو بھی حاصل کرے گا لیکن نہ اس طرح جیسے سچے و صداقت والے لوگ وارث ہیں۔
🔶توجہ رہے، حُکما نے خاموشی اور سکوت سےحکمت کی وراثت پائی ہے۔ علماء نے سعی اور کوشش کرکے علم حاصل کیا ہے اور سچے لوگوں نے خشوع اور لمبی عبادتوں کے ذریعے صدق و سچائی کے مقام کو حاصل کیا ہے۔
🔶اب جس نے اس راہ کو اپنایا، یا تو ڈوب جائے گا یا اونچا مقام حاصل کرے گا، تاہم زیادہ تر لوگ ان مقامات سے تنزلی پاتے ہیں اور اوپر نہیں جاتے۔
🔶کیونکہ انہوں نے پروردگار کے حق کی نافرمانی کی اور اس کے احکامات کو انجام نہ دیا۔ یہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہوں نے پروردگار کو اچھی طرح نہیں پہچانا اور اس سے اس طرح محبت نہیں کی جس کا وہ حق دار ہے۔
🔶لہذا ایسے لوگوں کے نماز و روزہ سے دھوکا مت کھانا اور ان کے علم و بیان سے گمراہ نہ ہونا “فإنهم حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ” (گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں)۔
https://t.me/AbodeofWisdom/8642
💠How to Recite the Quran according to Imām Ja’far al Sadiq:
🌷Imam al-Sadiq (peace be with him), with respect to God's words in the Quran:
🔸'Those to whom We have given the Book follow it as it ought to be followed'
🔹said: 'They recite its verses and comprehend it's meanings and act according to it's rules and regulations.
🔹They hope for it's promise and fear it's punishment,
🔹Exemplify and take stand from it's stories, take lesson from it's parables,
🔹Perform its orders, and stay away from what it has prohibited.
🔹By God, it is not just memorizing its verses, citing its words, reciting its chapters, and learning it's parts.
🔹They have memorized its words and mislaid it's definitions.
🔹That which is important is contemplating into it's verses.
🔸God Almighty says: 'It is a Book that We have relieved for you, is a benignity so that you should contemplate in it's verses".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
🌷الامام الصادق في قوله تعالى:
🔹الَّذِين آتيناهم الكتاب يتلونه حقّ تلاوته:
🔸يرتّلون آياته، و يتفهّمون معانيه، و يعملون بأحكامه،
🔸و يرجون وعده، و يخشون عذابه،
🔸و يتمثّلون قصصه، و يعتبرون أمثاله،
🔸و يأتون أوامره، و يجتنبون نواهيه.
🔸ما هو والله بحفظ آياته و سرد حروفه، و تلاوة سوره و درس أعشاره و أخماسه،
🔸حفظوا حروفه و أضاعوا حدوده،
🔸و انّما هو تدبّر آياته،
🔹يقول الله تعالى: 'كتابٌ أنزلناه إليك مباركٌ ليدّبّروا آياته'".
🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸🔹🔹🔸🔸
💠 تلاوت قرآن کے پیچھے موجود حقیقت
🌷 امام الصادق (سلام اللہ علیہ) نے قرآن میں فرمایے گیے خدا کےاس کلام “
🔸جنہین ہم نے کتاب دی ہے وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے”، کے متعلق فرمایا:
🔹قرآن کی آیات کو آہستہ اور خوبصورتی سے پڑھتے ہیں،
🔹پھر اس کے معانی کو سمجھنے کے لیے غور کرتے ہیں،
🔹پھر اس کے بتایے گیے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
🔹اس کے وعدوں میں امید اور شوق رکھتے ہیں، اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں،
🔹اس کے قصّوں سے مثالیں لیتے ہیں، اور اس کی مثالوں پر راہِ زندگی اختیار کرتے ہیں،
🔹اس کے احکام بجا لاتے ہیں، اور جو اس نے حرام کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں۔
🔹خدا کی قسم، مقصد صرف اسکی آیات کو حفظ کرنا، اسکے الفاظ کا حوالہ دینا، اس كے سوروں کو پڑھنا، اسکے جز کو یاد کرنا، نہیں ہے۔
🔹ان لوگوں نے اسکے الفاظ کو یاد اور اسکے معنی و مفہوم کو غلط بیان کیا۔
🔹جو سبسے اہم اور اصل بات ہے وہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور درست سمجھنا ہے۔
🔸اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جو ہم نے تمہارے لیے نازل کی ہے، یہ ایک عنایت اور برکت ہے تو تمہیں اسکی آیات میں غور و فکر کرنا چاہئیے۔
📚Mizan ul-Hikmah, pg. 899, no. 5187
📚Tanbih al-Khawatir, vol. 2, pg. 236
📚First verse: Quran 2:121
📚Second verse: Quran 38:29
Join here👉@AbodeofWisdom
“Way to paradise” & Reward of seeking knowledge
1. Imam Ja'far Sadiq (peace be with him) narrates from his ancestors that the Prophet said, "One who walks on the way to seek knowledge, Almighty God will make him walk on the way to Paradise. Angels spread their wings for the pleasure of a student and every thing in the earth and the heaven including the fishes of oceans repent for him.
A scholar is better than a worshipper much in the same way as a full moon is compared to stars. The scholars are inheritors of the prophets and the value of inheritance of prophets is measured in terms of knowledge instead of wealth.
Whoever got a little of their inheritance has achieved a lot.
2. Imam Mohammad Baqer (peace be with him) said, "No day or night of a scholar ends until he enters the mercy of God. The angels call out, 'Congratulations, O visitor of God! the way, which you are seeking, is the way to Paradise'.
Sawab-ul A'māl p177.
جنت کا راستہ اور علم کی برکتیں
۱-امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله نے فرمایا: جو شخص حصول علم کے راستے پر چلتا ہے، خداے متعال اسے جنت کے راستے پر چلائے گا، فرشتے اس کی راحتی کے لیے اپنے پر پھیلاتے ہیں. طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہر چیز حتا سمندر کی مچھلیاں اس کے لیے توبہ اور مغفرت کی کرتی ہیں.
ایک عالم عبادت گزار سے اس طرح بہتر ہے جس طرح چودہویں کے چاند کو ستاروں سے تشبیہ دی جاتی ہے. علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء کی وراثت کی قدر مال کی بجائے علم سے ہوتی ہے. جس کو ان کی وراثت میں سے تھوڑا حصہ ملا اس نے بہت کچھ حاصل کیا
۲-امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: عالم کا کوئی دن یا رات اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رحمت الٰہی میں داخل نہ ہو جائے، فرشتے پکارتے ہیں کہ اے زائرین خدا مبارک ہو، وہ راستہ ہے جس کو تم تلاش کر رہے ہو، جنت کا راستہ"
https://t.me/AbodeofWisdom
✍️O my Lord, the heart that fails to remember you and is not ecstatic about meeting you (when one passes away) is not a heart. (Rather,) It is a pulsating piece of flesh that allows one to eat, sleep, and pursue carnal desires like animals and beasts.
💠My Lord, grant us the heart that recognizes You and forbears every (challenging) thing in Your way, and for Your pleasure. (Now) that is truly a heart. (So please) Have mercy on us through (bestowing us) such a heart.
نجوا با خداي مهربان
✍معبودا دلی که در دنیا به یاد تو و روز ملاقات (مرگ) تو سرمست و خوش نباشد دل نیست، تکه گوشتی است که برای خوردن و خوابیدن و شهوترانی چون بهایم و چهارپایان درون سینه میتپد.
💠خدایا دلی که تو را شناخت و از همه چیز در راه تو و برای رضای تو گذشت، دل است. چنين دلي از کرمات به ما ترحم فرما.
پروردگار مہربان سے نجوا
✍اے معبود! وہ دل جو دنیا میں تیری یاد اور تجھ سے ملاقات (موت) کے شوق میں مست نہیں، دل نہیں. وہ سینے میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جو جانوروں اور درندوں کی طرح فقط کھانے پینے، سونے اور دنيوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دھڑکتا ہے.
💠خدایا! جو دل تُجھے پہچانتا ہو، اور تیری راہ میں، تیری رضا کے لیے ہر چیز سے گزر جائے، وہی دل ہے. تو پھر ایسا دل اپنے کرم سے ہمیں مرحمت فرما.
💠 https://t.me/AbodeofWisdom
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠💠💠 💠💠﷽💠💠💠💠💠💠
🔻ENGLISH🔻
🌱 Why did the prophets have less followers in their time than us in our time ?
📍Ayatollah Mutahhari:
🌱 “This occurrence has a secret. The secret is that they continually fought against the weaknesses of the people. While we use the weaknesses of people for our own profits. They wanted to eliminate those weaknesses and finish them off.
🌱 Whereas we have taken those weaknesses and used them to our advantage. For example in order to please the organizers of the “majalises” or the “audience” we talk accordingly to please them instead of talking beneficial to them.”
📖Ayatollah Shahīd Motahhari, Ten talkes, p. 273.
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨
🔻اردو🔻
🌱انبیا کے زمانے میں، انبیا کے پیرو اور مقلدین کیوں کم تھے؟ جب کہ ہمارے وقت میں ایسا نہیں ہے! (یعنی ہمارے پیرو، انبیا کے مقلدین سے زیادہ کیوں ہیں؟)
🌱اس بات میں ایک راز ہے. وہ راز یہ ہے کہ انبیا ہمیشہ لوگوں کی کمزوریوں کے ساتھ اختلاف کرتے اور لوگوں کی کمزوریوں سے لڑتے تھے. جب کہ ہم لوگوں کی کمزوریوں کو اپنے فایدے کے لیے استعمال کرتے ہیں. اور انبیا انسانوں کی کمزوریوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتے تھے.
🌱لیکن ہم “لوگوں” کی کمزوریوں سے فایدہ اُٹھاتے ہیں. مثال کے طور پر؛ ہم “مجالس برپا کرنے والوں” اور “مجالس سُننے” والوں کو “پسند آنے” والی اور “اُنہیں خوش کرنے والی باتیں” کہتے اور پڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے فایدے کی باتیں لوگوں کو بتائیں.
📖آیت اللہ شہید مطہری، دہ گفتار، ص.۲۷۳
Join here 👇
🌺🌺@AbodeofWisdom 🌺🌺
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
حضرت آیت اللہ سید ساجد علی نقوی
مجھے حیرت ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ جب بھی آپ اپنے بچوں کو مروجہ تعلیم میں ڈالتے ہیں تو وہاں سرٹیفیکٹ ہوتا ہے، ڈپلومہ اور ڈگری ہوتی ہے. اگلے مراحل طے کرکے لوگ ماسٹر اور پی ایچ ڈی تک پہنچتے ہیں. کوئی معیار مقرر ہیں. لیکن مذہب میں آپ کے پاس کوئی معیار نہیں ہے!
جو شخص آئے، کیا حیثیت ہے، پڑھا کیا ہے، اسکی (علمي) حیثیت کیا ہے، تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے اور کتنی حاصل کی ہے؟ کیا اس کے پاس کوئی سند، کوئی ڈگری یا کوئی مدرک ہے يا نہیں؟ یہ بھی نہیں پوچھا جاتا اور حتی وہ (منبر پر) جو کچھ کہے اس کے بارے میں بھی کوئی نہیں پوچھتا.
(یہ سب) اس لیے ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں علم کی کمی ہے، آل محمد کے علوم (روایات اور اقدار) سے استفادہ کی کمی ہے!
وہ لوگ جو اجتہاد کا مفہوم نہیں سمجھتے، وہ اجتہادی مسائل کے اندر رائے دیتے ہیں اور لوگ سنتے ہیں، اور داد بھی دیتے ہیں.
بہت کمزوری ہے، ہمیں اپنی (علمی اور اخلاقی) کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے!
Ayatollah Sayyed Sajid Ali Naqvi:
I am amazed and don’t understand that when you put your children in conventional education, they have certificates, diplomas and degrees. They then go on to the advanced stages and reach Master's and Ph.D. There are standards that are set. But when it comes to religion, why you have no such standards!
(You do not ask) the person who come to the pulpit , what is his status, what has he studied, what is his academic status, where did he get his education and how many years did he spend? Do you ask if he has a certificate, a degree, an evidence (if he attended the Hawza) or not? This question is never asked and no one even ask about whatever (right or wrong) that person says on the pulpit.
All of this is because there is a lack of knowledge and education in our society, a lack of benefiting from the teachings (traditions and values) of the Prophet and his Household!
Those who do not understand the meaning of ijtihad, they give opinions on ijtihadi issues and people listen, and even praise them.
There is so much weakness, we must work and strive to remove our (moral and educational) deficiencies!
[https://t.me/AbodeofWisdom
Join👇🏻عضويت
https://t.me/AbodeofWisdom
A Brief Analysis of Sustenance (رزق)
📝Ayatollah Hasanzadeh Amoli:
📍“Sustenance and livelihood is different than material property. In the narrations it teaches that sustenance and livelihood are apportioned. Meaning, every person’s sustenance is already allocated for them.
📍To the spiritual dimension of the universe, sustenance is allocated based on the capacity of a person, whether that be related to physical/material matters or spiritual matters, such that if a person exceeds that apportioned amount and acquires property like an ant (who stores more than what it needs), then that exceeded amount is not part of his sustenance but rather it is simply material possessions that he has acquired. Thus, acquired (excess) wealth is different from acquired sustenance.
📍Sustenance is that amount which is necessary for living. Similarly, it is the amount of breaths that a body absorbs and requires to function (which is counted part of sustenance), not more or less. Likewise, (it is also not part of sustenance) if a person buys a one thousand meter square home when he really needs a portion of that for his living.
📍In this manner, the spiritual dimension of the universe does not consider the one thousand meter square home to be the home of the individual, but rather considers only that amount of it which the person actually needs to be his home. And the excess from that will be noted in his account. Similar to how the length of a person’s life is apportioned in the spiritual dimension of the universe, to that extent one’s sustenance is also allocated.”
📝آیت اللہ حسن زادہ آملی:
رزق و روزی غیر مال است. در روایت فرموده اند: روزی و رزق مقسوم است. یعنی روزی هر کسی تقسیم شده است. در باطن عالم روزی را برای افراد به مقدار و سعت وجودی هر شخصی - چه در امور مادی و چه در امور معنوی - تقسیم کرده اند، که اگر شخصی بیش از آن اندازه معيّن پرسه بزند و مانند مورچه مال به دست بیابد، آن مقدار دیگر روزی اش نیست بلکه فقط مالی است که به دست آورده است، زیرا مال به دست آوردن، غیر از روزی به دست آوردن است. «روزی» آن مقداری را می گویند که شخص برای زنده ماندن به آن محتاج است. (همانند تنفس که بدن فقط آن مقدار لازم را جذب می کند نه بیشتر و نه کمتر از آن را)، همانند اینکه فردی خانهای به طول هزار متر مربع برای خود بسازد در حال که فقط به قسمتی از آن برای زندگی کردن نیازمند باشد. در این صورت، باطن عالم این خانهای هزار متر را منزل آن فرد نمی داند، بلکه فقط آن مقداری که شخص یرای زندگی به آن نیاز دارد را منزل او میداند و مابقی را اضافه به حساب می آورد. همان طور که در باطن نظام عالم، میزان عمر هر شخصی معيّن شده است، به هان مقدار هم رزق و روزی او تنظیم شده است.
منبع: شرح مراتب طهارت / علامه حسن زاده آملي، ص۵۰
رزق پر مختصر تجزیہ (رزق)
📝آیت اللہ حسن زادہ آملی:
📍 "رزق اور معاش مادی ملکیت سے مختلف ہے۔ روایات کے مطابق رزق اور روزی کی تقسیم مقرر ہے۔ یعنی انسان کا رزق اس کے لیے پہلے ہی سے مختص ہے۔
📍عالم معنوی کے مطابق، رزق کسی شخص کی وسعت کی بنیاد پر مختص کیا جاتا ہے، چاہے اس کا تعلق جسمانی/مادی معاملات سے ہو یا معنوی معاملات سے، جیسے کہ اگر کوئی شخص اس مقررہ مقدار سے زیادہ جمع کر لےاور چیونٹی کی طرح جائیداد حاصل کر لے (جو اپنی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کر لیتی ہے)، پھر یہ ضرورت سے زیادہ حصہ اس کے رزق میں شمارنہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف مادی ملکیت ہے جو اس نے حاصل کی ہے۔ چنانچہ، اضافی دولت اس کے لیے مختص کردہ رزق سے مختلف ہے۔
📍 رزق وہ مقدار ہے جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح، انسانی جسم کے لیے سانس کی مقدار بھی معین ہے (جو رزق کا حصہ شمار ہوتا ہے)، نہ زیادہ نہ کم۔اسی طرح، (یہ بھی رزق کا حصہ نہیں ہے) اگر کوئی شخص ایک ہزار مربع میٹر مکان خریدتا ہے جب کہ اسے دراصل اس کے محذ کچھ حصے کی ضرورت ہوتی ہے۔
📍 اس طریقے سے معنوی دنیا کے لحاظ سے ایک ہزار مربع میٹر گھر اس فرد کا گھر شمار نھیں کیا جاتا، بلکہ اس کا صرف اتنا ہی حصہ گھر شمار کیا جاتا ہے جو انسان کو درحقیقت اپنی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اس کی زیادتی اس کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔ جس طرح کسی شخص کی زندگی کا دورانیہ عالمِ معنی میں تقسیم کیا جاتا ہے، اسی حد تک اس کا رزق بھی مختص ہوتا ہے۔"
@AbodeofWisdom
Ayatollah Sayyed Sajid Ali Naqvi:
Incivility has brought this nation to the verge of destruction. The source that should have been used to nurture and raise the society was instead used to spread illiteracy. It became a source of incivility.
People do not have any morals.People do not realize that a huge part of Islam are good morals and ethics. Principles of Religion (Usul-e-Deen), Branches of Religion (Furu-e-Deen) and along with them, Morals are a big part.
(It is important) to learn, rehearse, and practice good morals. Controlling the rebellious horse of self. This creates good habits and qualities in a person.
We talk about the conduct of Ahl al-Bayt. We talk about the character of Ahl al-Bayt. But how much do we really derive from the character of Ahl al-Bayt in our day to day life?
We are far far away from the character of Ahl al-Bayt. We are far far away from conduct of Ahl al-Bayt. This is because the source to present the morals and characters of Ahl al-Bayt was alienated from their morals and teachings.
And I have many examples and proofs of this fact. I am an eyewitness of these things, so I do not need any evidence.
This thing alone has played a role in corrupting and destroying the morals of the nation.
Nations are made of morals. Knowledge too shows its signs and effects when it is watered with good morals and ethics. The tree of knowledge is watered through good morals.
A nation that does not have good morals. I think It is very hard for them to exist as a nation and advance towards national glory.
Therefore, (good morals) are very important!
حضرت آیت اللہ سید ساجد علی نقوی:
اس قوم کو بے تربیتی نے تباہی کے دہانے پر پہنچایا. آپ کے پاس لوگوں کو تربیت دینے کا جو ذریعہ تھا ، ادھر سے بے تربیتی دی گئی. وہ بے تربیتی کا ذریعہ بنا.
لوگوں میں اخلاقیات نہیں ہیں. لوگوں کو پتا نہیں ہے کہ اسلام کا بہت بڑا حصہ اخلاقیات ہیں. اصول دین، فروع دین اور اس کے ساتھ اخلاقیات ایک بہت بڑا حصہ ہے.
جن کو سیکھنا، جن کے لیے ریاضت کرنا، مشق کرنا (بہت اہم ہے).
نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دے کر رکھنے سے انسان کے اندر اچھی عادات، اچھی صفات پیدا ہوتی ہیں.
ہم سیرت اہلبیت اور کردار اہلبیت کی بات کرتے ہیں. لیکن ہم (اپنی زندگیوں میں) کردار اہلبیت سے کتنا حاصل کرتے ہیں؟
ہم کردار و سیرت اھلبیت سے بہت دور ہیں اس لیے کہ جو سیرت اھلبیت کے مظاہر اور ذرائع تھے ان کو سیرت (و تعلیمات) اھلبیت سے دور کر دیا گیا.
میرے پاس اس کی بہت سی مثالیں اور شواہد ہیں اور میں ان باتوں کا عینی شاہد ہوں اس لیے مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.
قوم کے اخلاق کو بگاڑنے میں اس کا کردار ہے. قوم کو اخلاقی لحاظ سے تباہ کر دیا گیا.
قومیں بنتی ہی اخلاق سے ہیں! علم بھی اس وقت اپنے آثار اور اثرات ظاہر کرتا ہے جب اس کو اخلاق کا پانی ملا ہو. شجر علم کی آبیاری اخلاق کے ذریعہ ہوتی ہے.
اور جس قوم کے پاس اخلاقیات نہ ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ بہت مشکل ہے کہ وہ قومی حیثیت سے (قائم رہے) اور اپنی قومی عظمت کو آگے بڑھا سکے.
اس لیے (اچھے اخلاق) بہت ضروری ہیں!
Join🔰
https://t.me/AbodeofWisdom
💠 What is the Difference between Fatima Zahra and other women?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 The difference is that Fatimah (peace be with her) possessed a degree of spiritual depth in her personality that made her a manifestation of the message. Most women with a mission have a commitment to the message which comes from outside of themselves. By contrast, for Fatimah (peace be with her) it came from inside her mind and heart and soul, because she lived the whole of her life with the message and under the wing of the Messenger of Allah (peace be with him and his Progeny), and then opened herself up to the full vigor of the message in the House of Ali (peace be with him), and moved dynamically in the emotion of the message with Hasan and Husain (peace be with them). Therefore, she lived the message. This is the difference between depth and shallowness. You cannot find anything in her personal life that speaks of leisure of purposelessness. This is what makes her a role model - the ultimate role model.
سوال: حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ عليہا) اور دوسري عام خواتين ميں کيا فرق ہے؟
جواب: حضرت زھرؑا اور دوسري خواتين ميں يہ فرق ہے کہ وہ اپني شخصيت ميں ايک خاص روحاني اور معنوي گہرائي کي حامل تھيں، جس نے انہيں رسالت کا مظہر بنايا۔ بہت سي خواتين جو کسي مقصد کي راہ ميں کوشاں ہيں، ان کا اس مقصد سے عزم اور وابستگي ايسي ہے جو ان کي ذات کے اندر سے ظاہر نہيں ہوتي بلکہ بيروني عوامل کا نتيجہ ہيں ۔ اس کے برعکس حضرت فاطمہ زھرا عليہالسلام کے ليے يہ عزم ان کے ذھن، اور روح و قلب کے اندر سے آيا کيونکہ انہوں نے اپني تمام تر زندگي رسالت اور رسول اللہﷺ کے سائے ميں بسر کي، اور پھر اميرالمومنينؑ کے گھر ميں اپنے آپ کو اس پيغام کي تبليغ کے لئے پوري قوت کے ساتھ پيش کيا، اور اپنے بيٹوں امام حسنؑ اور امام حسينؑ کے ہمراہ ترويج رسالت کي راہ ميں جوش و ولولہ کے ساتھ متحرک رہيں۔ لہذا، حضرت زھرؑا نے اپني ذات کو رسالت ميں ضم کرکے، اس کے پيغام کو زندہ رکھا اور اس پر عمل کرکے دکھايا۔ کسي مقصد کي راہ ميں سطحي پن يا گہرائي کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرنے ميں يہي فرق ہے۔ کوئي شخص بھي حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليہا کي ذاتي زندگي ميں کسي بے معني فرصت اور تفریح کو تلاش نہيں کر سکتا۔ يہي چيز آپ کو ايک نمونہٴ عمل بناتي ہے- ايک حتمي اور بہترين نمونہٴ عمل!
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻AbodeofWisdom
💠 Much wisdom, lessons and depth lie like concealed treasures in the narration of Ahlul Bayt (as). What is the way to open oneself up to this great grace?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 We have spoken more than once that our problem with Ahlul Bayt is that we have contained them in the prison of tragedy only! And that when we opened out the horizons, we did that in the area of miracles and miraculous favours. As for their thinking, their approach to life, their authentic prophetic line in life their comprehensive Qur’anic approach and all that they have said and moved dynamically in, which can provide answers to the questions, queries and problems from which our generation is suffering and future generations will be suffering, there is no work done that brings it out and explains it satisfactorily. We have cut them off from the dynamic movement of life and entered them in the movement of tears, therefore we have made a wide opportunity quite narrow!
You have attended, in this season, more than one gathering to mark the anniversary of Fatimah’s death. What have you heard about Fatimah al-Zahra (as)? I am here speaking in general terms, for amongst the orators there are those who bear the responsibility of enlightenment in the ways of Ahlul Bayt (as). However, most have concentrated on the tragedy and grievance. We emphasize the grievance, but this has been the grievance in the way of the Message, and not a weeping grievance. Ours is a grievance which encompasses vigor, strength, enlightenment, criticism, and confrontation.
سوال: احاديث اور روايات اھلبيت علیہم السلام ميں حکمت، حيات انساني کے ليے درس اور عميق مطالب کا ايک خزانہ پوشيدہ ہے؟ اس عظیم ذخيرہ سے استفادہ حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: ہم اس پر بارہا گفتگو کر چکے ہيں کہ اہلبيت کي نسبت ہمارا مسئلہ يہ ہے کہ ہم نے انہيں فقط مصائب و آلام کے قيدخانہ ميں مقيد کر ديا ہے! اور جب ہم نے ان کا ذکر کيا بھي تو ان کو محض چند معجزات اور ان کي جانب سے ظاہر ہونے والے معجزاتي فوائد تک محدود رکھا ہے۔ جہاں تک ان کي فکر، نظريہ زندگي، مستند پيغمبراںہ طرز حيات، قرآن کے متعلق جامع نقطہٴ نظر، اور وہ سب جو انہوں نے فرمايا اور عمل کر کے دکھايا، اور جو ہميں اور ہماري آنے والي نسلوں کو درپيش سوالات و مسائل کا راہ حل فراہم کرسکتا ہے، ان تمام پہلووٴں کو آشکار کرنے اور تسلي بخش وضاحت کرنے کے ليے کوئي کوشش اور کام نہيں ہوا ہے۔ ہم نے اہلبيت کو ايک متحرک نظام زندگي سے قطع کرکے غم اور آنسووٴں کي ايک تحريک ميں داخل کرديا ہے، لہذا ہم نے ايک بہت وسيع اور بہترين موقع کو نہايت کوتاہ کر ديا ہے۔
آپ نے حضرت فاطمہ زھرا کي شہادت کي مناسبت سے ان ايام عزا ميں يقيناً ايک سے زيادہ مجالس ميں شرکت کي ہے۔ آپ لوگوں نے ان مجالس ميں حضرت زھرا کے متعلق کيا سنا ہے؟ ميں يہاں ايک عمومي بات کررہا ہوں، کيونکہ ذاکرين اور خطباٴ لوگوں کے سامنے اھلبيت کي راہ کو روشن انداز ميں پيش کرنے کي ذمہ داري رکھتے ہيں۔ جبکہ ان ميں سے بہت سوں نے اپني توجہ اور گفتگو کا محور فقط اھلبيت کے مصائب اور مشکلات کو قرار ديا ہے۔ ہم نے صرف مصائب پر توجہ مرکوز رکھي جبکہ يہ تبليغِ رسالت کي راہ ميں پيش آنے والے مصائب ہيں نا کہ بے مقصد گريہ و رازي والے مصائب۔ يہ مصائب ايسے ہيں جس میں جوش و ولولہ، قوت، روشن خیالی، تنقید اور طاغوت کے مقابل محاذ آرائی شامل ہے۔
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻@AbodeofWisdom
الكتب والمواضيع والآراء فيها لا تعبر عن رأي الموقع
تنبيه: جميع المحتويات والكتب في هذا الموقع جمعت من القنوات والمجموعات بواسطة بوتات في تطبيق تلغرام (برنامج Telegram) تلقائيا، فإذا شاهدت مادة مخالفة للعرف أو لقوانين النشر وحقوق المؤلفين فالرجاء إرسال المادة عبر هذا الإيميل حتى يحذف فورا:
alkhazanah.com@gmail.com
All contents and books on this website are collected from Telegram channels and groups by bots automatically. if you detect a post that is culturally inappropriate or violates publishing law or copyright, please send the permanent link of the post to the email below so the message will be deleted immediately:
alkhazanah.com@gmail.com