قناة

Abode of Wisdom

Abode of Wisdom
1.2k
عددالاعضاء
1,296
Links
1,567
Files
623
Videos
4,052
Photo
وصف القناة
💠بسم الله الرحمن الرحيم 💠 Path of Erfan through living life
Forwarded From Faith Keepers
@FaithKeepers
Forwarded From Abode of Wisdom
Āyatollāh Jawādi Āmoli
Persian Clip زبان فارسي
Join here👉🏻@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
🌷Sayyid Fateminiya
“Humans are like lanterns and reminders (good lectures) are like fuel (meaning that we are always in need of the wisdom and guidance of Ahlulbayt).



🌷استاد فاطمی نیا:
✍ انسانها مثل چراغند و تذکرات مانند روغن (انسان همیشه نیازمند موعظه وتذکر است).



استاد فاطمی نیا:
انسان چراغ کی مانند ہیں، اور درس سُننا تیل کے جیسا ہے (انسان ہمیشہ درس کا محتاج ہے)

☀️Join here☀️به ما بپیوندید☀️
@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
☀️Āyatollāh Bahjat:
🌷So long as our relationship with our leader, the Imam of the time (peace be with him) is not strong, our issues will remain unresolved. And the strength of our relationship with our leader (peace be with him) lies in self-improvement.



☀️آیت الله بهجت (ره):
🌷تا رابطه ما با ولی امر، امام زمان (علیه السلام) قوی نشود ، کار ما درست نخواهد شد. و قوّت رابطه ما با ولی امر(علیه السلام) هم در اصلاح نفس است.
📒 فیضی از ورای سکوت ص ۶۵



☀️آیت اللہ بہجت:
🌷جب تک ولی امر امام زمان (علیہ السلام) سے ہمارا رابطہ اور تعلق مضبوط نہیں ہوگا اس وقت تک ہماری مشکلات حل اور ہمارے امور درست نہیں ہونگے۔ اور امام کے ساتھ ہمارے رابطے کی مضبوطی اصلاحِ نفس میں ہے۔

☀️Join here☀️به ما بپیوندید☀️
@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
💠💠💠 💠💠﷽💠💠💠💠💠💠

🔻ENGLISH🔻
🌱 Why did the prophets have less followers in their time than us in our time ?

📍Ayatollah Mutahhari:
🌱 “This occurrence has a secret. The secret is that they continually fought against the weaknesses of the people. While we use the weaknesses of people for our own profits. They wanted to eliminate those weaknesses and finish them off.

🌱 Whereas we have taken those weaknesses and used them to our advantage. For example in order to please the organizers of the “majalises” or the “audience” we talk accordingly to please them instead of talking beneficial to them.”

📖Ayatollah Shahīd Motahhari, Ten talkes, p. 273.

✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨

🔻اردو🔻
🌱انبیا کے زمانے میں، انبیا کے پیرو اور مقلدین کیوں کم تھے؟ جب کہ ہمارے وقت میں ایسا نہیں ہے! (یعنی ہمارے پیرو، انبیا کے مقلدین سے زیادہ کیوں ہیں؟)

🌱اس بات میں ایک راز ہے. وہ راز یہ ہے کہ انبیا ہمیشہ لوگوں کی کمزوریوں کے ساتھ اختلاف کرتے اور لوگوں کی کمزوریوں سے لڑتے تھے. جب کہ ہم لوگوں کی کمزوریوں کو اپنے فایدے کے لیے استعمال کرتے ہیں. اور انبیا انسانوں کی کمزوریوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتے تھے.

🌱لیکن ہم “لوگوں” کی کمزوریوں سے فایدہ اُٹھاتے ہیں. مثال کے طور پر؛ ہم “مجالس برپا کرنے والوں” اور “مجالس سُننے” والوں کو “پسند آنے” والی اور “اُنہیں خوش کرنے والی باتیں” کہتے اور پڑھتے ہیں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے فایدے کی باتیں لوگوں کو بتائیں.
📖آیت اللہ شہید مطہری، دہ گفتار، ص.۲۷۳

Join here 👇
🌺🌺@AbodeofWisdom 🌺🌺
✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃✨🍃
@AbodeofWisdom
A Brief Analysis of Sustenance (رزق)

📝Ayatollah Hasanzadeh Amoli:

📍“Sustenance and livelihood is different than material property. In the narrations it teaches that sustenance and livelihood are apportioned. Meaning, every person’s sustenance is already allocated for them.

📍To the spiritual dimension of the universe, sustenance is allocated based on the capacity of a person, whether that be related to physical/material matters or spiritual matters, such that if a person exceeds that apportioned amount and acquires property like an ant (who stores more than what it needs), then that exceeded amount is not part of his sustenance but rather it is simply material possessions that he has acquired. Thus, acquired (excess) wealth is different from acquired sustenance.

📍Sustenance is that amount which is necessary for living. Similarly, it is the amount of breaths that a body absorbs and requires to function (which is counted part of sustenance), not more or less. Likewise, (it is also not part of sustenance) if a person buys a one thousand meter square home when he really needs a portion of that for his living.

📍In this manner, the spiritual dimension of the universe does not consider the one thousand meter square home to be the home of the individual, but rather considers only that amount of it which the person actually needs to be his home. And the excess from that will be noted in his account. Similar to how the length of a person’s life is apportioned in the spiritual dimension of the universe, to that extent one’s sustenance is also allocated.”

📝آیت اللہ حسن زادہ آملی:
‎رزق و روزی غیر مال است. در روایت فرموده اند: روزی و رزق مقسوم است. یعنی روزی هر کسی تقسیم شده است. در باطن عالم روزی را برای افراد به مقدار و سعت وجودی هر شخصی - چه در امور مادی و چه در امور معنوی - تقسیم کرده اند، که اگر شخصی بیش از آن اندازه معيّن پرسه بزند و مانند مورچه مال به دست بیابد، آن مقدار دیگر روزی اش نیست بلکه فقط مالی است که به دست آورده است، زیرا مال به دست آوردن، غیر از روزی به دست آوردن است. «روزی» آن مقداری را می گویند که شخص برای زنده ماندن به آن محتاج است. (همانند تنفس که بدن فقط آن مقدار لازم را جذب می کند نه بیشتر و نه کمتر از آن را)، همانند اینکه فردی خانه‌ای به طول هزار متر مربع برای خود بسازد در حال که فقط به قسمتی از آن برای زندگی کردن نیازمند باشد. در این صورت، باطن عالم این خانه‌ای هزار متر را منزل آن فرد نمی داند، بلکه فقط آن مقداری که شخص یرای زندگی به آن نیاز دارد را منزل او میداند و مابقی را اضافه به حساب می آورد. همان طور که در باطن نظام عالم، میزان عمر هر شخصی معيّن شده است، به هان مقدار هم رزق و روزی او تنظیم شده است.

‎منبع: شرح مراتب طهارت / علامه حسن زاده آملي، ص۵۰

رزق پر مختصر تجزیہ (رزق)

📝آیت اللہ حسن زادہ آملی:

📍 "رزق اور معاش مادی ملکیت سے مختلف ہے۔ روایات کے مطابق رزق اور روزی کی تقسیم مقرر ہے۔ یعنی انسان کا رزق اس کے لیے پہلے ہی سے مختص ہے۔

📍عالم معنوی کے مطابق، رزق کسی شخص کی وسعت کی بنیاد پر مختص کیا جاتا ہے، چاہے اس کا تعلق جسمانی/مادی معاملات سے ہو یا معنوی معاملات سے، جیسے کہ اگر کوئی شخص اس مقررہ مقدار سے زیادہ جمع کر لےاور چیونٹی کی طرح جائیداد حاصل کر لے (جو اپنی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ کر لیتی ہے)، پھر یہ ضرورت سے زیادہ حصہ اس کے رزق میں شمارنہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف مادی ملکیت ہے جو اس نے حاصل کی ہے۔ چنانچہ، اضافی دولت اس کے لیے مختص کردہ رزق سے مختلف ہے۔

📍 رزق وہ مقدار ہے جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح، انسانی جسم کے لیے سانس کی مقدار بھی معین ہے (جو رزق کا حصہ شمار ہوتا ہے)، نہ زیادہ نہ کم۔اسی طرح، (یہ بھی رزق کا حصہ نہیں ہے) اگر کوئی شخص ایک ہزار مربع میٹر مکان خریدتا ہے جب کہ اسے دراصل اس کے محذ کچھ حصے کی ضرورت ہوتی ہے۔

📍 اس طریقے سے معنوی دنیا کے لحاظ سے ایک ہزار مربع میٹر گھر اس فرد کا گھر شمار نھیں کیا جاتا، بلکہ اس کا صرف اتنا ہی حصہ گھر شمار کیا جاتا ہے جو انسان کو درحقیقت اپنی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اس کی زیادتی اس کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔ جس طرح کسی شخص کی زندگی کا دورانیہ عالمِ معنی میں تقسیم کیا جاتا ہے، اسی حد تک اس کا رزق بھی مختص ہوتا ہے۔"

@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
📜Guidance of Imām Sadiq (peace be with him) to his companion Abdullah son of Jundab
❇️Part 1/25

💠Imam Sadiq said: O Abdullah! Satan sets his traps in this deceiving world, aiming at (entrapping) none other than our truly closest followers, whose (determination for success in the) hereafter is so exalted in their eyes that they accept nothing other than it.

(With deep sighs, Imām continues) Aah...aah...their hearts are (so) enlightened (such that they perceive) the world as though it were a venomous snake or treacherous enemy (waiting to ambush). They are wholeheartedly connected (with limitless love) to God and dread what people whose aim is hedonism and material aspirations possess or desire. Verily, they are our closest followers. By their means, every problem is solved and every tribulation is averted...

💠قال الإمام الصّادق عليه السلام: یَا عَبْدَ اللهِ، لَقَدْ نَصَبَ إِبْلِیسُ حَبَائِلَه فِي دَارِ الْغُرُورِ فَمَا
یَقْصِدُ فِیھَا إِلاّ أَوْلِیَاءَنَا، وَلَقَدْ جَلَّت الآْخِرَةُ فِي أَعْیُنِھِمْ حَتَّى مَا یُرِیدُونَ بِھَا بَدَلاً، ثُم َّ قَالَ: آهٍ آهٍ عَلَى قُلُوبٍ حُشِیَتْ نُورًا وَإِنَّمَا كَانَتِ الدُّنْیَا عِنْدَھُمْ بِمَنْزِلَةِ الشُّجَاعِ الأَْرْقَمِ وَالْعَدوَّ الأَْعْجَمِ، أَنِسُوا بِاالله وَاسْتَوْحَشُوا مِمَّا بِه اسْتَأْنَسَ الْمُتْرَفُونَ، أُولَئِكَ أَوْلِیَائِي حَقًّا وَبِھِمْ تُكْشَفُ كُلُّ فِتْنَةٍ وَتُرْفَعُ كُل ُّ بَلِیِّةٍ.

💠امام صادق (سلام الله عليه): یا عبدالله، شیطان دامھای خود را در دنیا گسترده و ھدف او اولیاء و دوستان ما ھستند، آنچنان آخرت در نظر دوستان ما بزرگ و با اھمیت است که ھرگز چیز دیگرى را بجاى آن نمی پذیرند سپس فرمود: آه آه بر دلھایی که پر از نور شده و دنیا در نظر آنھا ھمچون مار بزرگ و مسموم و دشمن نفھم است انس به خدا گرفته اند و از ھر چه دنیاپرستان به آن دل بسته اند بیزارند آنھا دوستان واقعى ما ھستند که به وسیله ایشان ھر آشوبى برطرف میشود
و ھر بلائى رفع میشود.


💠امام صادق (سلام الله عليه): اي عبدالله بن جندب شیطان نے اپنے سارے شکاری حربے اس دھوکے باز دنیا میں لگائے ہوئے ہیں اور اس کا نشانہ سوائے ہمارے بہترین شیعوں )اولیا( کے اور کوئی نہیں۔ جبکہ ِان کی نظروں میں آخرت اتنی عظیم ہے کے اُنہیں اس کے سوا اور کچہ چاہیے ہی نہیں۔ پھر امام آه بھرتے ہوے فرماتے ہیں: آه آه وه دل جو نور میں ڈوبے ہوے ہیں اور دنیا اُن کی نظروں میں ایک بڑے زہریلے سانپ کی جیسی اور نفہم دشمن کے مانند ہے۔ صرف خدا کی یاد اور ہمراہی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور ہر اس چیز سے کہ جس سے دنیا والوں کا دل لگا ہوا ہے اُس سے اُنہیں وحشت ہوتی ہے اور بیزار رہتے ہیں۔ وہی لوگ ہمارے صادق اور سچے پیروکار اور شیعہ ہیں۔ اُنہی کے ذریعہ ہر فتنہ سے نجات مل سکتی ہے اور بلائیں دور ہو سکتی ہیں۔ ------

📚 Tohaf al Uqool, Sayings of Imam Ja’far Sadiq, p. 311

Join us: 👇
@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
Join👇🏻
@AbodeofWisdom
Forwarded From Abode of Wisdom
Sunan an-Nabi
A Collection of Narrations on the Conduct and Customs of The Noble Prophet Mohammed
(Second edition)

Writing by AllamahSayyed Mohammad Husain Tabatabai
Edited by Tahir Ridha Jaffer

Join👇🏻عضويت
@AbodeofWisdom