💠Eight qualities of a Believer
🔸Imam Sadiq (peace be with him): A believer should have to have these eight qualities.
1️⃣ in rough times, he be dignified.
2️⃣ in times when life is heading down, he should be tolerant.
3️⃣ when peacefulness has entered his life, he should be thankful and appreciative.
4️⃣ whatever God has given him, he should be content.
5️⃣ he should not do injustice to his enemies.
6️⃣ he should not let his friends carry his burden.
7️⃣ his body is tired from himself.
8️⃣ people are in peace and comforted from his hands.
📚Usul al Kafi, vol. 2, pg. 47
امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا: ایک مومن میں یہ آٹھ صفات اور خوبیاں ہونی چاہئیں:
۱۔ مشکلات میں باوقار اور با شرف ہو۔
۲- ایسے وقت میں جب زندگی اس کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو صبر سے کام لے۔
۳- اور جب زندگی میں سکون و اطمینان آئے تو شکرگزار اور قدردان رہے۔
۴- پروردگار نے جو کچھ بھی اسے عطا کیا ہے اس پر مطمئن رہے۔
۵- اپنے دشمنوں کے ساتھ ہر گز نا انصافی اور ظلم نا کرے۔
۶- اپنے دوستوں پر اپنا بوجھ نا ڈالے۔
۷- اُس کا بدن اس سے تھکا ہوا رہے۔ (کثرت عبادت اور آرام کی کمی کی وجہ سے)
۸- لوگ اس کے ہاتھوں سے سکون اور امن میں رہیں (لوگوں کی مشکلات میں انکا مددگار ہو اور کسی کو اپنے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچائے)۔
Join👉🏻@AbodeofWisdom
🔷Worship of the wise vs Worship of the ignorant 🔷
✅Imam ‘Ali (peace be with) said:
“The worship that is NOT based on understanding is like a donkey walking around a mill, in that how much it walks, it still doesn’t go anywhere and remains in its first place.
Two units of prayer performed by the man of understanding is better than seventy rakat of worship by the ignorant.
Hence, when trials and corruption confront the wiseman, He navigates out of it by means of his knowledge (and understanding).
However, when trials confront the ignorant, it misguides and mislead him (and eventually destroys him) as a result of his ignorance (and lack of understanding).
Little action based on much knowledge and wisdom is greater than lots of action based on little to none wisdom and knowledge, which is also accompanied with doubt and uncertainty, and as a result truth and falsehood mix and mistakes occur.
Commentary:
{A trial could be a good happening or bad happening, in both options if a person handles it according to Godly-Values, he passes it successfully. But if he couldn’t handle it according to Godly-values, then the trial will take him down and might destroy his faith, religion, and humanistic-values}
✅امام علی علیه السّلام:
عبادت کنندهای که عبادتش از روی فهم و دانایی نباشد، مانند الاغ آسیاب است که فقط به دور خودش میچرخد و از جای اولش دور نمیشود.
دو رکعت نماز شخص دانا، بهتر از هفتاد رکعت نماز شخص نادان است. زیرا وقتی فتنه و تباهکاری به شخص دانا روی میآورد، او به وسیله دانش خود، از آن بیرون میرود.
ولی وقتی فتنه به جاهل و نادان رو میآورد، او را به دلیل نادانیاش گمراه میکند.
و كار اندك با علم و حكمت زياد، بهتر است از كار بسيار با علم و حكمت كم و به همراه شك شبهه كه در آن حق با باطل مختلط و اشتباه گردد.
📚بنادر البحار، جلد ۱، صفحه ۱۲۴
(به نقل از جلد اول بحارالانوار)
✅امام علی سلام اللہ علیہ نے فرمایا:
ایسی عبادت جو فہم و دانائی کے بغیر ہو، اس گدھے کی مانند ہے جو کہ ایک چکی کے گرد گھوم رہا ہو، اور اس میں وہ کتنا بهي چلتا ہے لیکن کہیں نہیں پہنچتا اور اپنی پہلی جگہ پر باقی رہتا ہے۔
ایک بافہم شخص کی دو رکعت نماز ایک جاھل کی ستر رکعتی عبادت سے بہتر ہے۔
لہذا جب آزمائش اور فتنہ ایک دانا شخص کے مقابل آتا ہے تو وہ اپنے علم و درست ديني فہم کے ذریعے اس (مصیبت) سے نکل جاتا ہے۔
البتہ، جب آزمائشیں ایک جاھل شخص کے مقابل آتی ہیں، تو وہ اسے اسکی جہالت اور کج فہمی کے نتیجے میں گمراہ اور (صحیح راہ سے) بھٹکا كر تباه كر دیتی ہیں۔
زیادہ علم و حکمت کے ساتھ کم عمل، اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جو کہ کم یا نا ہونے کے برابر علم و حکمت پر مبنی ہو، جو کہ شک اور بے یقینی کے بھی ہمراہ ہو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سچ اور جھوٹ مخلوط ہوجاتا ہے اور غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔
{ایک آزمائش، اچھی اور بری دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، دونوں صورتوں میں اگر ایک شخص انکا مقابلہ الہی اقدار کے مطابق کرتا ہے تو وہ کامیابی سے گزر جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ انکا مقابلہ الہی اقدار کے مطابق نہیں کرسکا تو وہ آزمائشیں اسے ناکام کر دیں گی اور اس شخص کا ایمان، دین اور انسانی اقدار بھی ختم کر سکتی ہیں۔}
@AbodeofWisdom
💠What do you understand from this hadith?
👇🏼👇🏼👇🏼👇🏼answer below 👇🏼👇🏼👇🏼👇🏼
✅”A person came to Imām Husayn (peace be with him) and said: ’Sit [with me] so that we can debate with each other regarding the religion.’
🔹The Imam said to him in reply, ‘O person! I am informed of my religion and the guidance is unveiled for me. If you are ignorant about the religion, then go and seek it. What have I to do with pretense and hypocrisy? Indeed, Satan tempts and whispers to man, saying, 'Debate and argue with people so that they do not assume you are incapable and ignorant.
🔸'Therefore, disputing and pretense (show off something false as true) is confined to one of these four forms:
📍Either you and your companion dispute through pretense over a matter whose reality is known to both of you, then certainly through this action you have forsaken sympathy and concern, sought disgrace, and wasted knowledge;
📍or you both are ignorant of it, then, in this case, you have disclosed your ignorance and you quarrel with each other out of ignorance;
📍or you know the reality of the matter [and he is ignorant], then, in this case, you have oppressed your companion by looking for his mistake;
📍or your companion knows the reality of the matter [and you do not], then you have not accorded him respect and you have not preserved his esteem.
🔹All of these shouldn’t happen. Therefore, one who is impartial accepts the truth and abandons pretense and hypocrisy, then [such a person] has truly made his faith firm.’”
✅ أن رجلا قال للحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام: اجلس حتى نتناظر في الدين. فقال: يا هذا أنا بصير بديني مكشوف علي هداي، فإن كنت جاهلا بدينك فاذهب فاطلبه، مالي وللمماراة ؟ وإن الشيطان ليوسوس للرجل ويناجيه ويقول: ناظر الناس لئلا يظنوا بك العجز والجهل.
ثم المراء لا يخلو من أربعة أوجه:
📍إما أن تتمارى أنت وصاحبك فيما تعلمان، فقد تركتما بذلك النصيحة، وطلبتما الفضيحة، وأضعتما ذلك العلم،
📍أو تجهلانه، فأظهرتما جهلا وخاصمتما جهلا،
📍وإما تعلمه أنت فظلمت صاحبك بطلب عثرته،
📍أو يعلمه صاحبك فتركت حرمته، ولم تنزله منزلته. وهذا كله محال ،
🔹 فمن أنصف وقبل الحق وترك المماراة، فقد أوثق إيمانه
📚منية المريد، الشهيد الثاني، ص ١٧١
✅ “ایک شخص نے امام حسین سلام اللہ علیہ کے پاس آ کر امام سے کہا: ‘بیٹھو تاکہ ہم دین کے بارے میں بحث و مناظرہ کریں۔’
🔹 امام نے جواباً فرمایا: ‘اے شخص! مجھے اپنے دین کی سمجھ اور علم ہے اور ہدایت (بھی) میرے لیے آشکار ہے۔ اگر تم دین کے بارے میں جاہل ہو تو جائو اور جا کر سیکھو۔ میرا مناظرہ اور ریاکاری سے کیا کام؟ اور یہ شیطان ہے جو وسوسہ کرتا ہے اور انسان سے کہتا ہے، ‘لوگوں سے بحث اور مناظرہ کرو تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ تم نالائق اور جاھل ہو۔
’چنانچہ جدل بحث اور رياكاري کرنے کی چار میں سے ایک وجہ ضرور ہوتی ہے:
📍 اب یا تم اور تمہارا ساتھی کسی ایسے موضوع پر بحث و مناظرہ کریں جس کی حقیقت تم دونوں کو معلوم ہے تو پھر یقینی طور پر تم نے خیر و نصیحت کی راہ کو چھوڑ کر بدنامی کو طلب کیا اور اُس علم کو برباد کیا ہے۔
📍 یا تم دونوں اس موضوع سے جاھل ہو، پھر اس صورت میں تم نے اپنی اپنی جہالت کو ظاہر کیا اور تم دونوں جہالت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جھگڑتے رہے۔
📍 یا صرف تم ہی موضوع کا علم رکھتے ہو (جبکہ تمہارا ساتھی نا آشنا ہے)، اس صورت میں تم نے اپنے ساتھی کی غلطی کو تلاش کرکے اور اس کی غلطی کا احساس کرا کے اس پر ظلم کیا ہے۔
📍 یا تمہارا ساتھی صحیح بات سے آگاہ ہے (جبکہ تم نہیں)، اس صورت میں تم نے اس کی بے حُرمتی کی ہے (اس کا احترام نہ کر کے)۔ جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
🔹 پھر جس نے انصاف کے ساتھ حق کو قبول کر لیا اور ریاکاری و دکھاوے کو چھوڑ دیا اس نے اپنے با ایمان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔’”
@AbodeofWisdom
Safwān Jammal Kufi was a very pious companion of Imām Ja’far Sadiq (peace be with him) and Imām Mūsa Kāzim (peace be with him). He used to earn his livelihood by hiring out camels. He owned a large number of camels.
He says that one day Imām Kāzim (peace be with him) said to him, "Safwan every action of yours is meritorious except one."
"May I be sacrificed for you, what action is that?"
Imām said, "You hire your camels to Harun-ar Rashīd.”
He said, "I dont give my camels for gathering wealth, hunting or games or any luxuries, rather he takes them for Makkah (when he goes for Hajj) and I do not serve him myself, I order my servants to accompany them on the journey."
Imām asked, "Do you expect rent after their return?"
I said: "Yes after their return".
He replied, "Don’t you carry the hope that they return safe and sound from their journey so that you receive your payment?"
"Yes."
Imām (peace be with him) said, "One who wishes for them to remain alive is like them and one who is connected with them will go to Hell.”
Safwan says,”I came back and then I sold away all my camels. When Harun heard of this he summoned me and asked the reason for it, saying I heard you sold out your camels, why? I replied, “I have become old and weak and I am unable to take care of the camels, even my servants are not capable of maintaining it properly."
Harun said, "Never, never It is not so! I know who has persuaded you to do this. You have done this on the direction of Musa son of Ja’far.”
What do I have to do with Musa son of Jafar?" said Safwan.
But Harun was not satisfied and said to leave these words, for had it not been for their good relations he would have killed me.
صفوان بن مهران کے پاس بہت سارے اونٹ تھے اور وہ انہیں کرایہ پر دینے کی تجارت کرتے تھے اور اس طرح اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ (عربی میں اونٹ کو جَمَل کہتے ہیں) تو اسی لیے صفوان کو صفوان جمّال کہتے ہیں۔
صفوان کہتے ہیں ایک بار میں امام کاظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو
حضرت نے فرمایا: صفوان تمہارا ہر کام اچھا ہے سواے ایک کام کے! صفوان نے پوچھا: میں آپ قربان جائوں وہ کیا ہے؟
امام نے فرمایا: کیا تم اپنے اونٹوں کو، اس آدمی کو (ہارون رشید عباسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) کرایہ پر دیتے ہو؟
صفوان نے عرض کیا: خدا کی قسم حرص و ہوس اور عیاشی کی خاطر یا دولت جمع کرنے کے لیے یہ کام نہیں کرتا ہوں، بلکہ جب وہ (ہارون) حج کے لیے جاتا ہے تب میں اسے اونٹ کرایہ پر دیتا ہوں۔ اور میں خود ساتھ نہیں جاتا بلکہ اپنے غلاموں کو کاروان کے ساتھ بہیجتا ہوں۔
امام فرماتے ہیں: کیا تمہیں اُس سے کرایہ لیتے ہو؟
جواب دیا: آپ کا یہ غلام آپ پر فدا ہو، جی ہاں۔
امام فرماتے ہیں: تو تمہاری تمنا ہے کہ وہ لوگ زندہ رہیں اور واپسی پر تمہیں کرایہ ملے؟
جواب دیا: جی ہاں۔
امام فرماتے ہیں: جو اُن لوگوں کے جینے کی آرزو رکھتا ہے وہ بھی اُنہی میں سے ہے۔ اور جو اُن میں سے ہے وہ جہنم میں جانے والا ہے۔
صفوان کہتے ہیں: میں واپس آیا اور سارے اونٹ بیچ دیے اور جب یہ خبر ہارون کو پہنچی تو اس نے مجھے بُلوایا اور سوال کیا؛ مجھے خبر ملی ہے تم نے اپنے سارے اونٹ بیچ دیے، کیوں کیا تم نے یہ کام؟
میں نے جواب دیا: ہاں سارے اونٹ بیچ دیے کیوں کہ میں بوڑہا ہو گیا ہوں (اب کام کی ہمت نہیں ہوتی) اور میرے غلام بھی صحیح طرح سے کام نہیں کر پاتے۔
ہارون کو بہت غصہ آیا اور کہا: ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے تم نے موسی بن جعفر کے اشارہ پر یہ کام کیا ہے۔
میں نے کہا: موسی بن جعفر سے میرا کیا لینا دینا ہے۔
ہارون کہتا ہے: رہنے دو ان باتوں کو، واللہ اگر تمہاری میرے ساتھ دوستی نہ ہوتی تو تمہیں قتل کر دیتا۔
@AbodeofWisdom
💎 The Prophet (peace be with him and his progeny):
🔶“The world goes from hand to hand (meaning it passes from one hand to another’s hand or from one’s control to another’s control, like from father to son. From group to group. From tribe to tribe). That which is destined in your favor will reach you even if you be disabled. And that which is against you (not in your favor), you cannot forcefully distance it from yourself.
🔶 Whoever loses hope and (abandons) greed (by detaching wholeheartedly) from what was in his possession, his body will be relieved.
🔶 And whoever becomes satisfied and agreeing with what Almighty God has bestowed him, his eyes will be delighted (his soul will settle in contentment and will be at peace).”
💎قال رسول الله الكريم ﷺ:
اَلدُّنْيا دُوَلٌ، فَما كانَ لَكَ مِنْها اَتاكَ عَلى ضَعْفِكَ، وَ ما كانَ عَلَيْـكَ لَمْ تَدْفَعْهُ بِقُوَّتِكَ،
🔶 وَ مَنِ انْقَطَعَ رَجاؤُهُ مِمّا فاتَ اسْتَراحَ بَدَنُهُ،
🔶 وَ مَنْ رَضىَ بِما رَزَقَهُ اللّه ُ قَرَّتْ عَيْنُهُ.
📖أمالى طوسى، ص۲۲۵، ح ۳۹۳
💎پيامبر اکرم ﷺ فرمودند:
دنيا دست به دست مى شود. آنچه از آن نصيب تو باشد، اگر ناتوان هم باشى، به تو مى رسد و آنچه به زيان تو باشد، به زور نمى توانى آن را از خود دور كنى.
🔶هر كس كه از آنچه از دستش رفته دل بكَنَد، جسمش آسوده مى گردد
🔶و هر كس به آنچه خدا روزى اش نموده خشنود شود، چشمش روشن [و دلش شادمان ]مى گردد.
💎حضرت رسول گرامی نے فرمایا:
دنیا اِس ہاتھ سے اُس ہاتھ جاتی ہے (کبھی تمہاری تو کبھی تمہاری اولاد کی اور کبھی کسی اور قبیلہ یا گروہ کی ہوگی)۔ جو چیز تمہارے فایدے کی ہوگی، تم جتنا بھی کمزور ہو، تمہیں ملےگی۔ اور جو تمہارے فایدے میں نہیں ہے جتنی بھی طاقت لگائو اُسے اپنی طرف آنے سے روک نہ سکو گے۔
🔶اب جو بھی چیز ہاتھ سے چلی گئی اُسے واپس پانے کی امید بھی اگر چلی جایے تو انسان کا جسم راحت میں ہوگا۔
🔶اور خدا کی طرف سے جو ملا ہے ( اپنی پوری کوششیں کرنے کے بعد بغیر کاہلی کیے، جسے کہتے ہیں، نصیب سے ملا ہے) اُس پر دل سے راضی ہو (یعنی سمجھ لو کہ یہی تمہارے فایدے کی ہے) تو یہی تُمہاری آنکھوں کا چین اور نور بنے گا (سکون قلب کا باعث ہوگا)۔
🔶 Join👉 @AbodeofWisdom | Wisdoms of prophet Mohammad & his Progeny
حكمت هاي ناب اهلبيت اطهار عليهم السلام
✅”A person came to Imām Husayn (peace be with him) and said: ’Sit [with me] so that we can debate with each other regarding the religion.’
🔹The Imam said to him in reply, ‘O person! I am informed of my religion and the guidance is unveiled for me. If you are ignorant about the religion, then go and seek it. What have I to do with pretense and hypocrisy? Indeed, Satan tempts and whispers to man, saying, 'Debate and argue with people so that they do not assume you are incapable and ignorant.
🔸'Therefore, disputing and pretense (show off something false as true) is confined to one of these four forms:
📍Either you and your companion dispute through pretense over a matter whose reality is known to both of you, then certainly through this action you have forsaken sympathy and concern, sought disgrace, and wasted knowledge;
📍or you both are ignorant of it, then, in this case, you have disclosed your ignorance and you quarrel with each other out of ignorance;
📍or you know the reality of the matter [and he is ignorant], then, in this case, you have oppressed your companion by looking for his mistake;
📍or your companion knows the reality of the matter [and you do not], then you have not accorded him respect and you have not preserved his esteem.
🔹All of these shouldn’t happen. Therefore, one who is impartial accepts the truth and abandons pretense and hypocrisy, then [such a person] has truly made his faith firm.’”
✅ أن رجلا قال للحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام: اجلس حتى نتناظر في الدين. فقال: يا هذا أنا بصير بديني مكشوف علي هداي، فإن كنت جاهلا بدينك فاذهب فاطلبه، مالي وللمماراة ؟ وإن الشيطان ليوسوس للرجل ويناجيه ويقول: ناظر الناس لئلا يظنوا بك العجز والجهل.
ثم المراء لا يخلو من أربعة أوجه:
📍إما أن تتمارى أنت وصاحبك فيما تعلمان، فقد تركتما بذلك النصيحة، وطلبتما الفضيحة، وأضعتما ذلك العلم،
📍أو تجهلانه، فأظهرتما جهلا وخاصمتما جهلا،
📍وإما تعلمه أنت فظلمت صاحبك بطلب عثرته،
📍أو يعلمه صاحبك فتركت حرمته، ولم تنزله منزلته. وهذا كله محال ،
🔹 فمن أنصف وقبل الحق وترك المماراة، فقد أوثق إيمانه
📚منية المريد، الشهيد الثاني، ص ١٧١
✅ “ایک شخص نے امام حسین سلام اللہ علیہ کے پاس آ کر امام سے کہا: ‘بیٹھو تاکہ ہم دین کے بارے میں بحث و مناظرہ کریں۔’
🔹 امام نے جواباً فرمایا: ‘اے شخص! مجھے اپنے دین کی سمجھ اور علم ہے اور ہدایت (بھی) میرے لیے آشکار ہے۔ اگر تم دین کے بارے میں جاہل ہو تو جائو اور جا کر سیکھو۔ میرا مناظرہ اور ریاکاری سے کیا کام؟ اور یہ شیطان ہے جو وسوسہ کرتا ہے اور انسان سے کہتا ہے، ‘لوگوں سے بحث اور مناظرہ کرو تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ تم نالائق اور جاھل ہو۔
’چنانچہ جدل بحث اور رياكاري کرنے کی چار میں سے ایک وجہ ضرور ہوتی ہے:
📍 اب یا تم اور تمہارا ساتھی کسی ایسے موضوع پر بحث و مناظرہ کریں جس کی حقیقت تم دونوں کو معلوم ہے تو پھر یقینی طور پر تم نے خیر و نصیحت کی راہ کو چھوڑ کر بدنامی کو طلب کیا اور اُس علم کو برباد کیا ہے۔
📍 یا تم دونوں اس موضوع سے جاھل ہو، پھر اس صورت میں تم نے اپنی اپنی جہالت کو ظاہر کیا اور تم دونوں جہالت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جھگڑتے رہے۔
📍 یا صرف تم ہی موضوع کا علم رکھتے ہو (جبکہ تمہارا ساتھی نا آشنا ہے)، اس صورت میں تم نے اپنے ساتھی کی غلطی کو تلاش کرکے اور اس کی غلطی کا احساس کرا کے اس پر ظلم کیا ہے۔
📍 یا تمہارا ساتھی صحیح بات سے آگاہ ہے (جبکہ تم نہیں)، اس صورت میں تم نے اس کی بے حُرمتی کی ہے (اس کا احترام نہ کر کے)۔ جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
🔹 پھر جس نے انصاف کے ساتھ حق کو قبول کر لیا اور ریاکاری و دکھاوے کو چھوڑ دیا اس نے اپنے با ایمان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔’”
@AbodeofWisdom
زندگی بعد از زندگی
ویڈیو میں کی گئی گفتگو کا اردو میں خلاصہ
https://t.me/AbodeofWisdom/8200
مرحوم آیت اللہ شیخ صافی گلپایگانی نے انقلاب اسلامی سے قبل “منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر” نامی ایک شاہکار کتاب تحریر کی تھی۔ اُس دور میں کتابوں کا چھپنا اور شائع کرنا بہت دشوار تھا کیونکہ اس کام کے لیے بہت محنت درکار ہوتی تھی۔ مرحوم آیت اللہ صافی کہتے ہیں کہ انہوں نے کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی تصدیق کے لیے نظر ثانی کا فیصلہ کیا کہ آیا کتاب میں سب کچھ درست چھپا ہے، جبکہ انکے مطابق اس کے جائزہ اور نظرثانی کے لیے کتاب کو دوسرے شہروں میں بھیجا جانا تھا۔
مرحوم آیت اللہ شیخ صافی فرماتے ہیں کہ جب وہ کتاب کے جائزہ میں مصروف تھے تو انہیں دنوں شدید بیمار پڑ گیے اور مختلف قسم کی ادویات کے استعمال اور علاج کے باوجود صحت میں بہتری نہیں آئی۔ مرحوم کہتے ہیں کہ ان کے اطبّا و خاندان کو یہ یقین ہوگیا کہ انکی کی موت نزدیک ہے اور تیاریوں میں مصروف ہوگیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان میں موجود بزرگ علماء جیسے اُنکے سسُر آیت اللہ سید محمد رضا گلپایگانی اور دیگر افراد آخری ملاقاتوں کے لیے انکے گھر آنے لگے۔
آیت اللہ شیخ صافی فرماتے ہیں کہ انکا انتقال ہوگیا اور انکی روح آسمان کی جانب پرواز کر گئی۔ شیخ صافی فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر ایسا محسوس ہوا کہ سب کچھ مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ آیت اللہ صافی یاد فرماتے ہیں کہ وہ عالَم کس قدر خوبصورت، پر مسرت حسین اور ناقابل تصور خوشی اور حُسن کا حامل تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ اس عظیم منظر کے مشاہدہ کے دوران آپ نے ایک آواز سنی جس نے آپکو مخاطب کرکے کہا کہ “کیا واپس جانا چاہتے ہو؟” آیت اللہ صافی نے جواب دیا “نہیں۔” کچھ دیر بعد وہ آواز دوبارہ آئی جبکہ آپ نے پھر نفی میں جواب دیا۔ پھر اس آواز نے کہا کہ “کیا کوئی ایسا کام ہے جو کہ ابھی مکمل ہونا ہے؟” آقاے صافی نے جواب دیا “جی ہاں، میں ابھی اپنی لکھی ہوئی کتاب پر نظرثانی کی کوشش کررہا تھا لیکن شاید حضرت حجت نے اس کتاب کی تکمیل کو مناسب نہیں سمجھا (لہذا پروردگار نے مجھے موت دے دی)۔ آیت اللہ صافی فرماتے ہیں کہ جیسے ہی انہوں نے یہ کہا انکی روح بدن میں واپس لوٹ آئی!
انکے بستر کے گرد موجود لوگ انکی واپسی دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیے اور بے حد خوش ہوئے۔ آیت اللہ شیخ صافی مکمل طور پر صحتیاب ہوئے جس کے بعد اُنہوں نے اپنی کتاب کو مکمل کیا اور سو برس سے زائد (۱۰۶ سال) طویل زندگی بسر کی۔ اس ویڈیو میں موجود سیّد کہتے ہیں کہ حتی کہ جب وہ اس بزرگی میں گفتگو کیا کرتے تھے تو اُنکا حافظہ اتنا قوی تھا کہ واقعات کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی مرحوم کو یاد تھیں۔
سیّد مزید کہتے ہیں کہ “ہم یہ سمجھتے تھے کہ رزق فقط مادی اور روحانی فائدہ ہوتا ہے جبکہ یہ نہیں سوچا کہ یہ زندگی بھر رہنے والا اور طول عمر میں بھی مؤثر ہوسکتا ہے!”
سیّد آخر میں کہتے ہیں کہ “میں نے اُن (آیت اللہ صافی) سے اس واقعہ کو نقل و بیان کرنے کی اجازت مانگی۔ البتہ انہوں نے اس بات کو نہ پھیلانے کو ترجیح دیا، میں نے اصرار کیا اور کہا کہ شاید انکا یہ تجربہ خدا کی جانب سے امانت تھا اور اس بات کو آپ نے بتایا۔ تو اب طُلاب کو بھی اس بات سے فائدہ پہنچانا چاہیے۔”
Subscribe here👉🏻@AbodeofWisdom
💠 What is the Difference between Fatima Zahra and other women?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 The difference is that Fatimah (peace be with her) possessed a degree of spiritual depth in her personality that made her a manifestation of the message. Most women with a mission have a commitment to the message which comes from outside of themselves. By contrast, for Fatimah (peace be with her) it came from inside her mind and heart and soul, because she lived the whole of her life with the message and under the wing of the Messenger of Allah (peace be with him and his Progeny), and then opened herself up to the full vigor of the message in the House of Ali (peace be with him), and moved dynamically in the emotion of the message with Hasan and Husain (peace be with them). Therefore, she lived the message. This is the difference between depth and shallowness. You cannot find anything in her personal life that speaks of leisure of purposelessness. This is what makes her a role model - the ultimate role model.
سوال: حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ عليہا) اور دوسري عام خواتين ميں کيا فرق ہے؟
جواب: حضرت زھرؑا اور دوسري خواتين ميں يہ فرق ہے کہ وہ اپني شخصيت ميں ايک خاص روحاني اور معنوي گہرائي کي حامل تھيں، جس نے انہيں رسالت کا مظہر بنايا۔ بہت سي خواتين جو کسي مقصد کي راہ ميں کوشاں ہيں، ان کا اس مقصد سے عزم اور وابستگي ايسي ہے جو ان کي ذات کے اندر سے ظاہر نہيں ہوتي بلکہ بيروني عوامل کا نتيجہ ہيں ۔ اس کے برعکس حضرت فاطمہ زھرا عليہالسلام کے ليے يہ عزم ان کے ذھن، اور روح و قلب کے اندر سے آيا کيونکہ انہوں نے اپني تمام تر زندگي رسالت اور رسول اللہﷺ کے سائے ميں بسر کي، اور پھر اميرالمومنينؑ کے گھر ميں اپنے آپ کو اس پيغام کي تبليغ کے لئے پوري قوت کے ساتھ پيش کيا، اور اپنے بيٹوں امام حسنؑ اور امام حسينؑ کے ہمراہ ترويج رسالت کي راہ ميں جوش و ولولہ کے ساتھ متحرک رہيں۔ لہذا، حضرت زھرؑا نے اپني ذات کو رسالت ميں ضم کرکے، اس کے پيغام کو زندہ رکھا اور اس پر عمل کرکے دکھايا۔ کسي مقصد کي راہ ميں سطحي پن يا گہرائي کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرنے ميں يہي فرق ہے۔ کوئي شخص بھي حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليہا کي ذاتي زندگي ميں کسي بے معني فرصت اور تفریح کو تلاش نہيں کر سکتا۔ يہي چيز آپ کو ايک نمونہٴ عمل بناتي ہے- ايک حتمي اور بہترين نمونہٴ عمل!
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻AbodeofWisdom
💠Eight qualities of a Believer
🔸Imam Sadiq (peace be with him): A believer should have to have these eight qualities.
1️⃣ in rough times, he be dignified.
2️⃣ in times when life is heading down, he should be tolerant.
3️⃣ when peacefulness has entered his life, he should be thankful and appreciative.
4️⃣ whatever God has given him, he should be content.
5️⃣ he should not do injustice to his enemies.
6️⃣ he should not let his friends carry his burden.
7️⃣ his body is tired from himself.
8️⃣ people are in peace and comforted from his hands.
📚Usul al Kafi, vol. 2, pg. 47
امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا: ایک مومن میں یہ آٹھ صفات اور خوبیاں ہونی چاہئیں:
۱۔ مشکلات میں باوقار اور با شرف ہو۔
۲- ایسے وقت میں جب زندگی اس کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو صبر سے کام لے۔
۳- اور جب زندگی میں سکون و اطمینان آئے تو شکرگزار اور قدردان رہے۔
۴- پروردگار نے جو کچھ بھی اسے عطا کیا ہے اس پر مطمئن رہے۔
۵- اپنے دشمنوں کے ساتھ ہر گز نا انصافی اور ظلم نا کرے۔
۶- اپنے دوستوں پر اپنا بوجھ نا ڈالے۔
۷- اُس کا بدن اس سے تھکا ہوا رہے۔ (کثرت عبادت اور آرام کی کمی کی وجہ سے)
۸- لوگ اس کے ہاتھوں سے سکون اور امن میں رہیں (لوگوں کی مشکلات میں انکا مددگار ہو اور کسی کو اپنے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچائے)۔
Join👉🏻@AbodeofWisdom
آیت اللہ عبداکریم کشمیری کی ماہ مبارک رمضان کے لیے ۹ نصیحتیں
۱۔ مقدار والے نہیں بلکہ معیار والے بنیں
آیات قرآنی اور دعاؤں کو ختم کرنے کے پیچھے مت جائیں بلکہ ان (کے مفاہیم) کوہضم کرنے کی کوشش کریں۔ چھوٹے لقمے کو اچھی طرح چبائیں تاکہ وہ آپکی جان کا حصہ بن جائے۔ دین اور شریعت کے متعلق ہماری سب سے بڑی مشکل تنگ نظری اور سطحی پن ہے۔ خود فکر کریں کہ گزشتہ سالوں میں زیادہ سے زیادہ اعمال انجام دینے کی نیت کے ساتھ جو کچھ پڑھا اور اعمال انجام دیے، تو اس نے آپکو کہاں پہنچایا؟ ماہ رمضان کے آغاز میں حتماً نیت کریں کہ فقط خدا کی خاطر روزہ رکھیں۔ فقط اللہ (کی خاطر)۔ روزہ کے آداب کو جہاں تک آپ کے لیے آسانی اور نشاط سے ممکن ہے، انجام دیں۔
۲- تفکر
یقینی بنائیں کہ اپنے روزہ کے گھنٹوں میں سے راز و نیاز سے معمور کچھ لمحوں کو اعلی ترین عبادات کے لیے مختص کریں جوکہ تفکر اور غور و فکر کے سوا کچھ نہیں۔ خود اور اپنے خدا کے درمیان خلوت کریں خصوصا غور کریں کہ آپکے اور خدا کے مابین کیسا رابطہ ہے۔ امید ہے کہ آپ کے لیے معرفت کے دروازے کھل جائیں گے۔
۳- ماہ رمضان میں بندگی کی ایک اہم ترین حالت
ایسی حالت ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے تاکیداً نصیحت کی گئی ہے۔ جو کہ “طولانی سجدہ” ہے۔ فقط خدا اور اولیا الہی جانتے ہیں کہ سجدۂ بندگی کرتے وقت رحمت خدا کے بادلوں سے کیسی بارش اور عالم ربوبیت سے کیسی برکت آپکے اوپر برستی ہے۔حتماً دن میں ایک مرتبہ طولانی سجدہ بجا لائیں۔
۴- جس قدر ممکن ہو اپنے گھر میں ہی افطار کریں
حتی کہ مساجد میں بھی روزہ افطار مت کریں اس لمحہ میں افطار کی برکتوں اور مستجاب دعاؤں سے اپنے خانوادہ اور گھر کو مبارک کریں۔ اس کے علاوہ، افطار کے وقت خدا سے “دِلال” کریں۔ یعنی انتہائی محبت کے ساتھ خدا سے ناز کریں۔ افطار کے دوران پروردگار سے ناز کریں۔ کیونکہ آپ نے خدا کی خاطر روزہ رکھا ہے اور اس نے اپنے کرم کا دسترخوان بچھایا ہوا ہے۔ پہلے لقمہ کو اپنے منہ کے قریب لائیں لیکن اسے مت کھائیں! دعا کریں۔ یعنی پروردگار سے عرض کریں کہ “اگر تو میری حاجات کو قبول کرے گا تو پھر میں افطار کروں گا!”۔ یہ حالت حیرت انگیز معجزات کرتی ہے
۵- رمضان میں ضیافت الہی میں برقرار اور باقی رہنے کا راز
خوش اخلاقی کا کیمیا ہے۔ اپنے بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور مھربانی والے رویے سے ملیں۔ آپ کے غصہ اور ناراضگی کے لمحات ضیافت الہی سے باہر ہو جانے کا سبب ہیں۔
۶- رمضان کے (الہی) مناظر کی کشتی آنسؤوں کی موجوں پر سوار ہے
اور نجات کے ساحل پر پہنچتی ہے۔ خدا سے مناجات کریں خصوصاً سحر کے حیرت انگیز بابرکت لمحات میں۔ گریہ اورآنسؤوں کے ذریعہ درخواست کریں۔
۷- ماہ رمضان کے ابتدا سے آپکا ھدف
لیلۃ قدر ہونی چاہئیے جوکہ ماہ رمضان کی جان ہے۔ اس کے متعلق کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن مصلحت نہیں کہ اسکے رازوں سے پردہ اٹھایا جائے۔ فقط کوشش کریں کہ شب قدر ہمارے اندر ہو نا کہ ماہ (رمضان) میں۔
۸- یہ مہینہ قرآن کی بہار کا مہینہ ہے
اس قرآنی بہار میں ہر روز ایک آیت کا انتخاب کریں اور افطار کے وقت تک وقفے وقفے سے اسکی تلاوت کریں اور اس کے مفاھیم میں گہرائی سے تدبر کریں۔ امید ہے کہ افطار کے وقت تک یہ آیت آپ کے لیے اپنے (راز دارانہ) رخسار سے پردہ ہٹا دے۔
۹- ماہ رمضان کے دوران
آپ کی توجہ حقیقی روزہ دار اور انسان کامل، یعنی امام زمان سے منقطع نا ہونے پائے۔
رمضان مبارک
Join here👇🏻عضويت
@Abodeofwisdom
Ayatollah Motahari:
“One of the greats would make such a good point. He would say that whenever you would make du’a, we say to God, ‘Oh God, give to me.’
We never make du’a that, ‘Oh God, take from me,’ although we are in need of this du’a more.
Those things that God should take from us, we are more in need of those to be taken than we are of those things that are given.
Until He takes those things that should be taken from us, there is nothing that can essentially be given.
We must say, ‘Oh God, take from me this love of status and property.’
Take from me this envy, take these resentments and complexes from me.
Take this anguish from my heart, remove these curtains from my eyes.
Take from me these shackles, this hypocrisy, this enmity, these grudges, these doubts, this polytheism, this arrogance, this jealousy.
We are more in need of these things to be taken from us than what He gives us.
What are you? First calculate what you are, what do you have, what are you seeking, and for where are you seeking?
[Saib Tabrizi] said, ‘Become a mirror then seek the beauty of the beautiful ones. [First sweep the home, then invite the guests].’ First throw out that which should be taken from you, then say, ‘Give to me.’
At that time, your du’a will be answered.
دعا؛ خدايا مجھ سے یہ چیزیں لے لے
آیت اللہ شہید مطہری
https://t.me/AbodeofWisdom/8563
ایک بزرگ عالم نے کیا خوبصورت بات کہی ہے۔ فرمایا کہ ہم پروردگار کے حضور ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں کہ “خدایا! مجھے عطا فرما۔”
ہم کبھی یہ دعا نہیں کرتے کہ “خدایا! مجھ سے یہ لے لے”، جبکہ ہمیں اس دعا کی زیادہ ضرورت ہے۔
وہ چیزیں جو خدا کو ہم سے لے لینی چاہئیں، ہمیں اًنكی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ لے لی جائیں، ان چیزوں کی نسبت جو ہمیں اس کی طرف سے دی جائیں۔
جب تک خدا ہم سے وہ چیزیں لے نہ لے جو لی جانی چاہئیں اس وقت تک در حقیقت کچھ بھی ایسا نہیں جو ہمیں دیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ کہنا چاہئیے کہ “خدایا ہم سے یہ جاہ (مقام) و مال کی محبت لے لے۔”
“ہم سے حسد لے لے،
ہم سے یہ کینہ اور تعصب لے لے۔”
“ہم سے قلبی قدورتیں لے لے،
ہماری آنکھوں سے یہ پردہ ہٹا دے۔”
ہم سے یہ زنجریں، یہ نفاق، یہ دشمنی، یہ رنجشیں، یہ شک، یہ شرک، یہ تکبر اور یہ حسد لے لے۔”
ہمیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم سے یہ چیزیں لے لی جائیں، اس کی نسبت کہ خدا ہمیں کچھ عطا کرے۔
تم کیا ہو؟ پہلے اس بات کا حساب کرو کہ تم کیا ہو، تمہارے دامن میں کیا ہے، تمہیں کس چیز کی طلب ہے اور تمہیں کہاں کے لیے یہ طلب ہے؟
[صائب تبریزی]نے کہا:” آئینہ بن جائو اور پھر خوبصوت لوگوں کی خوبصورتی طلب کرو۔ [پہلے گھر کو صاف کرو پھر مہمان کو دعوت دو]۔” پہلے جو کچھ تم سے لیا جانا چاہئیے اسے باہر پھینکو، پھر کہو، “مجھے عطا کر۔”
اس وقت تمہاری دعا قبول ہوگی۔
Join👇🏻عضويت
@AbodeofWisdom
💠Imām Sadiq (peace be with him) said:
🔷“The people of intellect are those who function through contemplation and reflection in order to inherit the love of God.
🔷When the love of God is inherited by the heart and enlightened through it, then recognizing the special attention from God enters the heart. When recognition of God’s special attention reveals upon the heart, it (the heart) will become the center of benefits.
🔷And whenever it becomes the place of benefits the heart will express wisdom, and whenever the heart expresses wisdom then it becomes the possessor of sagacity.
🔷Whenever it achieves the grade of sagaciousness, he will act with strength and power, and whenever he acts with strength he will understand the seven layers of skies.
🔷Whenever he arrives at this stage, he will enhance and upgrade contemplation through recognizing the special attention from God, (constantly pursuing) wisdom, and (only speaking) insightful language.
🔷Whenever he comes to this stage his desires and love will be for the Creator (God).
🔷When he has done this he arrives at such a high state, where he will perceive his Lord in his heart….
🔷Here, he will inherit wisdom but not in the way that the wise adopt it, and he will inherit knowledge but not in the manner that scholars grasp it, and he will inherit truth and veracity but not in the way that the sincere ones attain it.
🔷The wise adopt wisdom through silence, and the scholars endeavor tirelessly to grasp it, and the sincere attain truth and veracity through humility and continuous worship.
🔷Whoever acquires (the above) through such means will either lose and downgrade or upgrade in rank, however, they mostly downgrade and do not upgrade.
🔷It is because they did not uphold God’s rights and did not follow His commands. This is the description of those who are not truly conscious of God as they are supposed to be. And did not love Him as he ought to be loved.
🔷Therefore, do not be deceived and deluded by their prayers, fasts, and their oration and knowledge. ‘Indeed they are ‘frightened and escaping donkeys’ (Quran 74: 50).’”
💠امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا:
🔶عقل مند (اولوالالباب) وہ لوگ ہیں جنہوں نے غوروفکر سے کام لیا، اور اسی غوروفکر سے پرودگار کی محبت کی وراثت کو پا لیا۔
🔶جب پروردگار کی محبت، دل میں آ ہی گئی اور دل اس سے روشن ہو گیا، تب پروردگار کا لطف و کرم اور مہربانی بھی دریافت ہوگی. اور جب پروردگار کا لطف نازل ہوتا ہے تو دل فایدوں (فوائد) کا مرکز بن جاتا ہے۔
🔶اور جب دل فایدوں کا مرکز بنتا ہے تو وہ حکمت سے/کی بات کرتا ہے اور جب دل حکمت و عقلمندی کے ذریعہ سے بات کرتا ہے تو فہم و شعور و فراست کا حامل بن جاتا ہے۔
🔶جب دل میں فہم و فراست پیدا ہوتی ہے تو ایسا انسان قدرت اور قوت کے ساتھ عمل کرتا ہے اور جب وہ قدرت کے ساتھ عمل کرتا ہے تو ساتوں آسمانوں کو پہچان لیتا ہے۔
🔶جب وہ شخص اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو اُسکی فکر مُنقلب (عالی) ہو جاتی ہے، جو پروردگار کے لطف و کرم، حکمت اور ویسے ہی بیان میں غرق ہوتی ہے۔
🔶اور جب وہ اس حالت کو پا لے تو اسکی خواہشات، شہوتیں اور محبتیں فقط پروردگار سے جڑ جائیں گی۔
🔶جب وہ اوپر بیان شدہ امور کو انجام دے چُکا، پھر وہ عظیم مقامات کو حاصل کر لیتا ہے، اور اب وہ اپنے دل میں پروردگار کا مشاہدہ کرتا ہے۔
🔶یہاں وہ حکمت (گہری سمجھ) کی وراثت کو حاصل کرے گا لیکن نہ اُس طرح جیسے حُکما حاصل کرتے ہیں۔ علم کی وراثت کو پا جائے گا لیکن نہ اس طرح جیسے علماء وارث ہیں، اور سچائی و صداقت کی وراثت کو بھی حاصل کرے گا لیکن نہ اس طرح جیسے سچے و صداقت والے لوگ وارث ہیں۔
🔶توجہ رہے، حُکما نے خاموشی اور سکوت سےحکمت کی وراثت پائی ہے۔ علماء نے سعی اور کوشش کرکے علم حاصل کیا ہے اور سچے لوگوں نے خشوع اور لمبی عبادتوں کے ذریعے صدق و سچائی کے مقام کو حاصل کیا ہے۔
🔶اب جس نے اس راہ کو اپنایا، یا تو ڈوب جائے گا یا اونچا مقام حاصل کرے گا، تاہم زیادہ تر لوگ ان مقامات سے تنزلی پاتے ہیں اور اوپر نہیں جاتے۔
🔶کیونکہ انہوں نے پروردگار کے حق کی نافرمانی کی اور اس کے احکامات کو انجام نہ دیا۔ یہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہوں نے پروردگار کو اچھی طرح نہیں پہچانا اور اس سے اس طرح محبت نہیں کی جس کا وہ حق دار ہے۔
🔶لہذا ایسے لوگوں کے نماز و روزہ سے دھوکا مت کھانا اور ان کے علم و بیان سے گمراہ نہ ہونا “فإنهم حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ” (گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں)۔
https://t.me/AbodeofWisdom/8642
ایک روز امام صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے پوچھا: تم سب نے اب تک مجھ سے کیا سیکھا ہے؟
ایک شاگرد نے جواب دیا: میں نے آپ سے آٹھ چیزیں سیکھی ہیں.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان کو بیان کرو تاکہ ہم سب جان سکیں.
۱. میں نے سیکھا کہ ہر عاشق موت کے وقت اپنی محبوب چیزوں سے جدا ہو جائے گا چنانچہ میں نے اپنی توانائی ایسی چیزوں پر صرف کی جو مجھ سے جدا نہیں ہونگی اور مجھے تنہا نہیں چھوڑیں گی. درحقیقت میری تنہائی میں میرے لیے ایک رازدار ساتھی ہے اور جو چیز مجھ سے جدا نہیں ہوگی وہ خدا کی راہ میں عمل صالح ہے، جو کہ موت کے بعد بھی میرے ساتھ رہے گا. پروردگار فرماتا ہے: “جو کوئی برا عمل کرے گا اسکی سزا بہرحال ملے گی .”(سورۃ النساء)
امام صادق نے فرمایا: بخدا تم نے بہترین بات کہی. اور دوسرا نقطہ کیا ہے؟
۲. میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے مال کی کثرت پر گھمنڈ کرتا ہے اور دوسرا گروہ اپنی جائیداد اور اپنے نسب پر غرور کرتا ہے، جبکہ ان میں سے کوئی چیز بھی غرور کرنے کے قابل نہیں ہے. میں نے خدا کے کلام میں فخر دیکھا ہے: “خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے .” (الحجرات)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بخدا بہترین. تیسری بات کیا ہے؟
۳. میں دیکھتا ہوں کہ لوگ دنیاوی لذتوں اور لغو چیزوں میں مگن اور مشغول ہیں جبکہ پروردگار نے فرمایا: “اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے. تو جنت اسکا ٹھکانا اور مرکز ہے .”(النازیات)
امام صادق نے فرمایا: خدا کی قسم تم نے درست کہا. چوتھا نقطہ کیا ہے؟
۴. میں نے دیکھا کہ لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی اور مال بچایا جب بھی انہیں عطا کیا گیا جبکہ پروردگار فرماتا ہے: “کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے دو گنا کردے اور اس کے لیے با عزت اجر بھی ہو .”(الحدید) اس طرح جو کوئی خدا کی راہ میں اپنا مال قرض دے تو خدا اس میں کئی گنا اضافہ کردے گا اور ایسے شخص کو عظیم اجر دے گا. لہذا میں (اپنے اجر میں) کئی گنا اضافے کو پسند کرتا ہوں اور خدا کے پاس (امانت رکھوائے ہوئے مال) سے زیادہ کسی چیز کو محفوظ نہی سمجھتا. یہی وجہ ہے کہ جب بھی میرے پاس کوئی شے زیادہ مقدار میں آتی ہے تو میں اس کے ذریعے خدا کے طرف رجوع کرتا ہوں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں تاکہ اسے آخرت کے لیے محفوظ کرسکوں کہ جس روز مجھے اس کی شدت سے ضرورت ہو گی.
https://t.me/AbodeofWisdom/8855
امام علیہ السلام نے فرمایا: بخدا تم نے بہترین کہا. پانچویں بات کیا ہے؟
۵. میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں جبکہ پروردگار فرماتا ہے: “ہم نے ہی ان کے درمیان معیشت کو زندگانی دنیا میں تقسیم کیا ہے اور بعض کو بعض سے اونچا بنایا ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور رحمت پروردگار ان کے جمع کئے ہوئے مال و متاع سے کہیں زیادہ ہے .”(الذخرف) لہذا جب مجھے اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ رحمت الہی لوگوں کے جمع کئے ہوئے (مال و دولت) سے کہیں زیادہ ہے، تو میں نے کسی سے حسد نہیں کیا اور کبھی کسی (دنیاوی) چیز کے ہاتھ سے چلے جانے پر رنج و افسوس نہیں کیا.
امام صادق نے فرمایا: خدا کی قسم تم نے درست کہا. چھٹا نقطہ کیا ہے؟
۶. میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ دنیاوی فائدوں اور انا پرستی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، جبکہ میں نے پروردگار کے یہ الفاظ سنے ہیں: “بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو .”(الفاطر) لہذا میں نے شیطان سے دشمنی اختیار کر لی اور دوسروں (انسانوں) سے دشمنی کو ترک کر دیا.
امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا: بخدا تم نے بہت اچھا بیان کیا. ساتواں نقطہ کیا ہے؟
۷. میں دیکھتا ہوں کہ لوگ روزگار حاصل کرنے کی خاطر مادی چیزوں کو جمع کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مشکلات میں گرفتار کرلیتے ہیں، جبکہ میں نے خدا کے کلام سے سنا ہے: “اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے. میں ان سے نہ رزق کا طلبگار ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کچھ کھلائیں. بیشک رزق دینے والا، صاحب قوت اور زبردست صرف اللہ ہے .”(الذاریات) لہذا مجھے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ خدا کا وعدہ حق ہے اور اس کا کلام صدق ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے پروردگار کے وعدہ پر زندگی گزاری اور اس کے قول پر راضی ہوگیا اور اپنی توجہات کو غیرِ خدا سے (رزق و روزی) مانگنے سے ہٹا لیا.
امام علیہ السلام نے جواب دیا: بخدا تم نے احسن بات کی. آٹھواں نقطہ کیا ہے؟
۸. میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنی جسمانی صحت اور قوت پر ناز کرتا ہے، اور ایک گروہ اپنے کثرتِ مال پر گھمنڈ کرتا ہے، جبکہ ایک گروہ اپنی زیادہ اولاد پر غرور کرتا ہے اور ان چیزوں سے اچھے مستقبل کے امید لگائے ہوئے ہیں حالانکہ میں نے خداوند متعال سے سنا ہے: “اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کرتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لیے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لیے ایک مقدار معین کردی ہے .”(الطلاق) لہذا میں نے خدا پر توکل کیا اور دوسروں پر سے میرا اعتماد زائل ہو گیا.
امام صادق سلام اللہ علیہ نے ان آٹھ نکات کو سننے کے بعد فرمایا: “خدا کی قسم کہ تورات، انجیل، زبور، فرقان، اور تمام کتب آسمانی ان آٹھ مطالب کو مطرح کرتی ہیں .”
https://t.me/AbodeofWisdom/8855
“Way to paradise” & Reward of seeking knowledge
1. Imam Ja'far Sadiq (peace be with him) narrates from his ancestors that the Prophet said, "One who walks on the way to seek knowledge, Almighty God will make him walk on the way to Paradise. Angels spread their wings for the pleasure of a student and every thing in the earth and the heaven including the fishes of oceans repent for him.
A scholar is better than a worshipper much in the same way as a full moon is compared to stars. The scholars are inheritors of the prophets and the value of inheritance of prophets is measured in terms of knowledge instead of wealth.
Whoever got a little of their inheritance has achieved a lot.
2. Imam Mohammad Baqer (peace be with him) said, "No day or night of a scholar ends until he enters the mercy of God. The angels call out, 'Congratulations, O visitor of God! the way, which you are seeking, is the way to Paradise'.
Sawab-ul A'māl p177.
جنت کا راستہ اور علم کی برکتیں
۱-امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله نے فرمایا: جو شخص حصول علم کے راستے پر چلتا ہے، خداے متعال اسے جنت کے راستے پر چلائے گا، فرشتے اس کی راحتی کے لیے اپنے پر پھیلاتے ہیں. طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہر چیز حتا سمندر کی مچھلیاں اس کے لیے توبہ اور مغفرت کی کرتی ہیں.
ایک عالم عبادت گزار سے اس طرح بہتر ہے جس طرح چودہویں کے چاند کو ستاروں سے تشبیہ دی جاتی ہے. علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء کی وراثت کی قدر مال کی بجائے علم سے ہوتی ہے. جس کو ان کی وراثت میں سے تھوڑا حصہ ملا اس نے بہت کچھ حاصل کیا
۲-امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: عالم کا کوئی دن یا رات اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رحمت الٰہی میں داخل نہ ہو جائے، فرشتے پکارتے ہیں کہ اے زائرین خدا مبارک ہو، وہ راستہ ہے جس کو تم تلاش کر رہے ہو، جنت کا راستہ"
https://t.me/AbodeofWisdom
💠Imam Zain-ul Ābedīn, the fourth Imam, (peace be with him) said:
“And in regard to the rights of your child:
know that he is from you and is attached to you in this world with regard to his good and bad deeds.
✅And you are responsible for raising him good,
✅teaching him well manners,
✅guiding him to his Almighty Lord,
✅and assisting him to obey his Lord.
☑️Therefore, act as one who knows that if he does good (which is mentioned above) then he will be graced and rewarded,
☑️and he will be punished when doing wrong (such as to neglect his duties to his children).
💠قال الامام السجاد (سلام الله عليه):
أما حق ولدك فأن تعلم
أنهُ منك و مضافٌ اليك في عاجل الدنيا بخيره و شرِّهِ.
✅ و أنك مسؤول عمّا وَلَيتَهُ
✅ من حسن أدب
✅ و الدلالة على ربه عزوجل.
✅ والمعونة له على طاعته.
☑️فاعمَل في أمره عملَ مَن يعلمُ
أنه مثابٌ على الاحسانِ اليه
☑️و معاقبٌ على الإسائة اليه.
الفقيه، ٦٢٢/٢
💠امام سجاد سلام اللہ علیہ:
اور تمہاری اولاد کے حقوق کے حوالے سے:
یاد رکھو کہ وہ تم سے ہے اور اس دنیا میں اپنے اچھے اور برے اعمال کے سلسلے میں تم سے وابستہ ہے
✅تم اس کی اچھی پرورش کے ذمہ دار ہو، ✅اسکو اچھے آداب سکھانا،
✅اس کو پروردگار کی طرف ہدایت کرنا،
✅اور خدا کی اطاعت میں اس کی مدد کرنا.
☑️لہذا، ایسے (شخص کی طرح) عمل کرو جو جانتا ہے کہ اگر اچھا کرے گا تو اس کا صلہ اور اجر پائے گا
☑️اور اگر برا کرے گا تو سزا کا حقدار ہوگا (تربیت اولاد میں کوتاہی اور غفلت برتنے کی وجہ سے)
Join👇🏻عضويت
https://t.me/AbodeofWisdom
حضرت آیت اللہ سید ساجد علی نقوی
مجھے حیرت ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ جب بھی آپ اپنے بچوں کو مروجہ تعلیم میں ڈالتے ہیں تو وہاں سرٹیفیکٹ ہوتا ہے، ڈپلومہ اور ڈگری ہوتی ہے. اگلے مراحل طے کرکے لوگ ماسٹر اور پی ایچ ڈی تک پہنچتے ہیں. کوئی معیار مقرر ہیں. لیکن مذہب میں آپ کے پاس کوئی معیار نہیں ہے!
جو شخص آئے، کیا حیثیت ہے، پڑھا کیا ہے، اسکی (علمي) حیثیت کیا ہے، تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے اور کتنی حاصل کی ہے؟ کیا اس کے پاس کوئی سند، کوئی ڈگری یا کوئی مدرک ہے يا نہیں؟ یہ بھی نہیں پوچھا جاتا اور حتی وہ (منبر پر) جو کچھ کہے اس کے بارے میں بھی کوئی نہیں پوچھتا.
(یہ سب) اس لیے ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں علم کی کمی ہے، آل محمد کے علوم (روایات اور اقدار) سے استفادہ کی کمی ہے!
وہ لوگ جو اجتہاد کا مفہوم نہیں سمجھتے، وہ اجتہادی مسائل کے اندر رائے دیتے ہیں اور لوگ سنتے ہیں، اور داد بھی دیتے ہیں.
بہت کمزوری ہے، ہمیں اپنی (علمی اور اخلاقی) کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے!
Ayatollah Sayyed Sajid Ali Naqvi:
I am amazed and don’t understand that when you put your children in conventional education, they have certificates, diplomas and degrees. They then go on to the advanced stages and reach Master's and Ph.D. There are standards that are set. But when it comes to religion, why you have no such standards!
(You do not ask) the person who come to the pulpit , what is his status, what has he studied, what is his academic status, where did he get his education and how many years did he spend? Do you ask if he has a certificate, a degree, an evidence (if he attended the Hawza) or not? This question is never asked and no one even ask about whatever (right or wrong) that person says on the pulpit.
All of this is because there is a lack of knowledge and education in our society, a lack of benefiting from the teachings (traditions and values) of the Prophet and his Household!
Those who do not understand the meaning of ijtihad, they give opinions on ijtihadi issues and people listen, and even praise them.
There is so much weakness, we must work and strive to remove our (moral and educational) deficiencies!
[https://t.me/AbodeofWisdom
Join👇🏻عضويت
https://t.me/AbodeofWisdom
✅”A person came to Imām Husayn (peace be with him) and said: ’Sit [with me] so that we can debate with each other regarding the religion.’
🔹The Imam said to him in reply, ‘O person! I am informed of my religion and the guidance is unveiled for me. If you are ignorant about the religion, then go and seek it. What have I to do with pretense and hypocrisy? Indeed, Satan tempts and whispers to man, saying, 'Debate and argue with people so that they do not assume you are incapable and ignorant.
🔸'Therefore, disputing and pretense (show off something false as true) is confined to one of these four forms:
📍Either you and your companion dispute through pretense over a matter whose reality is known to both of you, then certainly through this action you have forsaken sympathy and concern, sought disgrace, and wasted knowledge;
📍or you both are ignorant of it, then, in this case, you have disclosed your ignorance and you quarrel with each other out of ignorance;
📍or you know the reality of the matter [and he is ignorant], then, in this case, you have oppressed your companion by looking for his mistake;
📍or your companion knows the reality of the matter [and you do not], then you have not accorded him respect and you have not preserved his esteem.
🔹All of these shouldn’t happen. Therefore, one who is impartial accepts the truth and abandons pretense and hypocrisy, then [such a person] has truly made his faith firm.’”
✅ أن رجلا قال للحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام: اجلس حتى نتناظر في الدين. فقال: يا هذا أنا بصير بديني مكشوف علي هداي، فإن كنت جاهلا بدينك فاذهب فاطلبه، مالي وللمماراة ؟ وإن الشيطان ليوسوس للرجل ويناجيه ويقول: ناظر الناس لئلا يظنوا بك العجز والجهل.
ثم المراء لا يخلو من أربعة أوجه:
📍إما أن تتمارى أنت وصاحبك فيما تعلمان، فقد تركتما بذلك النصيحة، وطلبتما الفضيحة، وأضعتما ذلك العلم،
📍أو تجهلانه، فأظهرتما جهلا وخاصمتما جهلا،
📍وإما تعلمه أنت فظلمت صاحبك بطلب عثرته،
📍أو يعلمه صاحبك فتركت حرمته، ولم تنزله منزلته. وهذا كله محال ،
🔹 فمن أنصف وقبل الحق وترك المماراة، فقد أوثق إيمانه
📚منية المريد، الشهيد الثاني، ص ١٧١
✅ “ایک شخص نے امام حسین سلام اللہ علیہ کے پاس آ کر امام سے کہا: ‘بیٹھو تاکہ ہم دین کے بارے میں بحث و مناظرہ کریں۔’
🔹 امام نے جواباً فرمایا: ‘اے شخص! مجھے اپنے دین کی سمجھ اور علم ہے اور ہدایت (بھی) میرے لیے آشکار ہے۔ اگر تم دین کے بارے میں جاہل ہو تو جائو اور جا کر سیکھو۔ میرا مناظرہ اور ریاکاری سے کیا کام؟ اور یہ شیطان ہے جو وسوسہ کرتا ہے اور انسان سے کہتا ہے، ‘لوگوں سے بحث اور مناظرہ کرو تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ تم نالائق اور جاھل ہو۔
’چنانچہ جدل بحث اور رياكاري کرنے کی چار میں سے ایک وجہ ضرور ہوتی ہے:
📍 اب یا تم اور تمہارا ساتھی کسی ایسے موضوع پر بحث و مناظرہ کریں جس کی حقیقت تم دونوں کو معلوم ہے تو پھر یقینی طور پر تم نے خیر و نصیحت کی راہ کو چھوڑ کر بدنامی کو طلب کیا اور اُس علم کو برباد کیا ہے۔
📍 یا تم دونوں اس موضوع سے جاھل ہو، پھر اس صورت میں تم نے اپنی اپنی جہالت کو ظاہر کیا اور تم دونوں جہالت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جھگڑتے رہے۔
📍 یا صرف تم ہی موضوع کا علم رکھتے ہو (جبکہ تمہارا ساتھی نا آشنا ہے)، اس صورت میں تم نے اپنے ساتھی کی غلطی کو تلاش کرکے اور اس کی غلطی کا احساس کرا کے اس پر ظلم کیا ہے۔
📍 یا تمہارا ساتھی صحیح بات سے آگاہ ہے (جبکہ تم نہیں)، اس صورت میں تم نے اس کی بے حُرمتی کی ہے (اس کا احترام نہ کر کے)۔ جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
🔹 پھر جس نے انصاف کے ساتھ حق کو قبول کر لیا اور ریاکاری و دکھاوے کو چھوڑ دیا اس نے اپنے با ایمان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔’”
@AbodeofWisdom
💠 What is the Difference between Fatima Zahra and other women?
📍Answer by Ayatollah Fadlallah
💠 The difference is that Fatimah (peace be with her) possessed a degree of spiritual depth in her personality that made her a manifestation of the message. Most women with a mission have a commitment to the message which comes from outside of themselves. By contrast, for Fatimah (peace be with her) it came from inside her mind and heart and soul, because she lived the whole of her life with the message and under the wing of the Messenger of Allah (peace be with him and his Progeny), and then opened herself up to the full vigor of the message in the House of Ali (peace be with him), and moved dynamically in the emotion of the message with Hasan and Husain (peace be with them). Therefore, she lived the message. This is the difference between depth and shallowness. You cannot find anything in her personal life that speaks of leisure of purposelessness. This is what makes her a role model - the ultimate role model.
سوال: حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ عليہا) اور دوسري عام خواتين ميں کيا فرق ہے؟
جواب: حضرت زھرؑا اور دوسري خواتين ميں يہ فرق ہے کہ وہ اپني شخصيت ميں ايک خاص روحاني اور معنوي گہرائي کي حامل تھيں، جس نے انہيں رسالت کا مظہر بنايا۔ بہت سي خواتين جو کسي مقصد کي راہ ميں کوشاں ہيں، ان کا اس مقصد سے عزم اور وابستگي ايسي ہے جو ان کي ذات کے اندر سے ظاہر نہيں ہوتي بلکہ بيروني عوامل کا نتيجہ ہيں ۔ اس کے برعکس حضرت فاطمہ زھرا عليہالسلام کے ليے يہ عزم ان کے ذھن، اور روح و قلب کے اندر سے آيا کيونکہ انہوں نے اپني تمام تر زندگي رسالت اور رسول اللہﷺ کے سائے ميں بسر کي، اور پھر اميرالمومنينؑ کے گھر ميں اپنے آپ کو اس پيغام کي تبليغ کے لئے پوري قوت کے ساتھ پيش کيا، اور اپنے بيٹوں امام حسنؑ اور امام حسينؑ کے ہمراہ ترويج رسالت کي راہ ميں جوش و ولولہ کے ساتھ متحرک رہيں۔ لہذا، حضرت زھرؑا نے اپني ذات کو رسالت ميں ضم کرکے، اس کے پيغام کو زندہ رکھا اور اس پر عمل کرکے دکھايا۔ کسي مقصد کي راہ ميں سطحي پن يا گہرائي کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرنے ميں يہي فرق ہے۔ کوئي شخص بھي حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليہا کي ذاتي زندگي ميں کسي بے معني فرصت اور تفریح کو تلاش نہيں کر سکتا۔ يہي چيز آپ کو ايک نمونہٴ عمل بناتي ہے- ايک حتمي اور بہترين نمونہٴ عمل!
📚 “The Infallible Fatima: a Role Model for Men and Women” by Ayatollah Fadlallah
Join 👉🏻AbodeofWisdom
💠Eight qualities of a Believer
🔸Imam Sadiq (peace be with him): A believer should have to have these eight qualities.
1️⃣ in rough times, he be dignified.
2️⃣ in times when life is heading down, he should be tolerant.
3️⃣ when peacefulness has entered his life, he should be thankful and appreciative.
4️⃣ whatever God has given him, he should be content.
5️⃣ he should not do injustice to his enemies.
6️⃣ he should not let his friends carry his burden.
7️⃣ his body is tired from himself.
8️⃣ people are in peace and comforted from his hands.
📚Usul al Kafi, vol. 2, pg. 47
امام صادق سلام اللہ علیہ نے فرمایا: ایک مومن میں یہ آٹھ صفات اور خوبیاں ہونی چاہئیں:
۱۔ مشکلات میں باوقار اور با شرف ہو۔
۲- ایسے وقت میں جب زندگی اس کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو صبر سے کام لے۔
۳- اور جب زندگی میں سکون و اطمینان آئے تو شکرگزار اور قدردان رہے۔
۴- پروردگار نے جو کچھ بھی اسے عطا کیا ہے اس پر مطمئن رہے۔
۵- اپنے دشمنوں کے ساتھ ہر گز نا انصافی اور ظلم نا کرے۔
۶- اپنے دوستوں پر اپنا بوجھ نا ڈالے۔
۷- اُس کا بدن اس سے تھکا ہوا رہے۔ (کثرت عبادت اور آرام کی کمی کی وجہ سے)
۸- لوگ اس کے ہاتھوں سے سکون اور امن میں رہیں (لوگوں کی مشکلات میں انکا مددگار ہو اور کسی کو اپنے ہاتھ سے نقصان نہ پہنچائے)۔
Join👉🏻@AbodeofWisdom
الكتب والمواضيع والآراء فيها لا تعبر عن رأي الموقع
تنبيه: جميع المحتويات والكتب في هذا الموقع جمعت من القنوات والمجموعات بواسطة بوتات في تطبيق تلغرام (برنامج Telegram) تلقائيا، فإذا شاهدت مادة مخالفة للعرف أو لقوانين النشر وحقوق المؤلفين فالرجاء إرسال المادة عبر هذا الإيميل حتى يحذف فورا:
alkhazanah.com@gmail.com
All contents and books on this website are collected from Telegram channels and groups by bots automatically. if you detect a post that is culturally inappropriate or violates publishing law or copyright, please send the permanent link of the post to the email below so the message will be deleted immediately:
alkhazanah.com@gmail.com